کنہیا کمار سی پی ائی کی امیدوں میں ایک روشنی کی کرن‘ تمام آنکھیں عظیم اتحاد پر ٹکی ہوئی ہیں۔ این ڈی اے

,

   

بیگوسرائے میں اب بھی کچھ تذبذب باقی ہے کہ آیا سی پی ائی آرجے ڈی کے زیر قیادت گرانڈ الائنس کا حصہ رہے گی یا نہیں اور این ڈی اے کا امیدوار کون ہوگا‘کنہیا کمار کے متعلق سی پی ائی کا ریاستی اور مقامی یونٹ زوردے رہا ہے

نئی دہلی ۔ جمعہ کے روز کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے نئی دہلی میں پندرہ لوک سبھا امیدواروں کی ایک فہرست جاری کی جس میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین صدر کنہیا کمار کا نام شامل نہیں ہے۔

پارٹی کا کہنا ہے اب بھی بہار میںآر جے ڈی سے بات چیت جاری ہے ‘ جب یہ بات مکمل ہوجائے گی تو ’’ کنہیا کے متعلق فیصلہ‘‘ لیاجائے گا۔اب بھی بیگوسرائے میں اب بھی کچھ تذبذب باقی ہے کہ آیا سی پی ائی آرجے ڈی کے زیر قیادت گرانڈ الائنس کا حصہ رہے گی یا نہیں اور این ڈی اے کا امیدوار کون ہوگا‘کنہیا کمار کے متعلق سی پی ائی کا ریاستی اور مقامی یونٹ زوردے رہا ہے۔

ریاستی یونٹ نے صاف کردیا ہے کہ کنہیا کا نام فہرست میں شامل ہے او روہ مرکزی یونٹ کے فیصلے کا انتظارکررہے ہیں۔سال2014کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے اس سیٹ پر جیت حاصل کی تھی ‘ اب وہ دوبارہ اس سیٹ کو حاصل کرنے کی جستجو میں ہے۔

اکٹوبر2018میں پارٹی کے 2014کے الیکشن میں جیت حاصل کرنے والے بھولہ سنگھ کے گذر جانے کے بعد یونین منسٹر گری راج سنگھ کا نام یہاں پر سے امیدوار کے طور پر گشت کررہا ہے ‘ مگر اب تک گری راج سنگھ بیگو سرائی سے الیکشن میں مقابلہ کرنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی ہے ۔

بی جے پی کے جانب سے زیر بحث ناموں میں ایم ایل سی رجنیش اور سابق صحافی ابھیرنجن کمار کے نام بھی شامل ہیں۔ مذکورہ ایل جے پی جو ناوڈا او ربیگوسرائی کے عوض منگور دینے کی بات کررہی ہے اس کے پاس فی الحال سیٹ ہے ‘مگر بی جے پی نے جو جے ڈی ( یو) کے ساتھ کیا کہ اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔نہ ہی اب تک اس با ت کافیصلہ ہوا کہ بائیں بازو جماعتیں آیا کیا عظیم اتحاد کا حصہ بنیں گے

۔سی پی ائی بہار کے سکریٹری ستیہ نارائن سنگھ نے کہاکہ ’’ پچھلے چار پانچ ماہ سے کنہیا بیگوسرائی کے لوگوں سے ملاقات کررہا ہے۔ وہ بیگوسرائی کے تمام سات اسمبلی حلقوں میں کم سے کم دومرتبہ جاتے ہیں۔ چھوٹی میٹنگ میں بھی وہ کم سے کم اٹھ ہزارلوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں ۔

وہ یقیناًہمارے امیدوار ہیں چاہئے آر جے ڈی سے اتحاد ہو یانہیں ہو‘‘۔بیگوسرائی جس سے متصل بالیا بھی ہے ( نئی حدبندی سے قبل) علاقہ کو سی پی ائی کا زیر اثر علاقہ کہلائے جانے کی بناء پر’’ چھوٹاماسکو‘‘ کہتے تھے ‘ اور یہی سے کنہیا کو امیدوار بنانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔

بیگوسرائی کے بہیات گاؤں میں اعلی ذات کے بھومیا ر طبقے کا غلبہ ہے۔ بھومیاروں کی 3.5لاکھ پر مشتمل آبادی سب سے اثر دار طبقہ ہے ‘ جس کے بعد 2.5لاکھ مسلمان ووٹ ہیں‘ دھانکو کرمیں دولاکھ‘ یادو 1.75لاکھ اور کشواہا تقریبا ایک لاکھ ووٹرس ہیں۔

اوپیندر کشواہا کی آر ایل ایس پی اب گرانڈ الائنس میں تو کشواہا ووٹ بھی تقسیم ہوسکتے ہیں۔ سی پی ائی نے بیگوسرائی سے دو مرتبہ 1967اور 1991میں جیت حاصل کی تھی یا پھر ہر مرتبہ یا تو دوسرے نمبر پر رہی یا تیسرے نمبر پر۔ ایمرجنسی کے بعد پہلی مرتبہ نتیش کمار کی زیرقیادت این ڈی اے نے کانگریس اور لفٹ کی گرفت کو بیگوسرائی میں کمزور کیا۔

وہیں جے ڈی ( یو) کے منظر حسین نے 2009میں یہاں سے جیت حاصل کی تھی ‘ بی جے پی نے 2014میں بھولہ سنگھ کو یہاں سے امیدوار بناکر نریندر مودی کی لہر میں کنارے لگادیا۔ اس وقت کے الیکشن میںآر جے ڈی کے تنویر حسین نے3.69لاکھ ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ سی پی ائی کے راجندر سنگھ 1.91لاکھ ووٹ لے کر تیسرے مقام پر رہے۔

وہیں کنہیا نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ ’’ مخالف مودی ‘‘ مضبوط لہر تیار کرتے ہوئے مسلمان ووٹ حاصل کرنے کا جہاں دعوی پیش کررہے ہیں‘ وہیں گری راج باہری( مونگور کے بارہیاسے ) ہونے کے باوجودکنہیا کو سخت مقابلہ دیں گے۔

اگر لفٹ گرانڈ الائنس کا حصہ نہیں رہے گاتو آر جے ڈی تنویر حسن کو اپنا امیدوار بناسکتی ہے‘ جو بیگوسرائے میں مقابلہ کو سہ رخی بنادے گا