ٹرمپ پالیسی کیخلاف قانونی جنگ جاری، بین الاقوامی طلبہ کو راحت پہنچانے کی کوشش
نیویارک۔ 10 جون (ایجنسیز) ہارورڈ یونیورسٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعلیمی پالیسیوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ ٹرمپ کی کالج مخالف مہم کے تحت ویزہ پابندیوں کا سامنا کرنے والے بین الاقوامی طلبہ کو سہارا دینے کے لیے ہارورڈ نے امریکہ اور دنیا کی دیگر ممتاز یونیورسٹیوں سے بات چیت شروع کر دی ہے۔یونیورسٹی آف شکاگو اور لندن بزنس اسکول سمیت متعدد اداروں کے ماہرین تعلیم ہارورڈ کے ساتھ ان طلبہ کے مستقبل پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں جو اگلے تعلیمی سال میں داخلہ لینے والے تھے لیکن ویزہ پابندیوں کے باعث خطرے میں ہیں۔ دیگر امریکی یونیورسٹیاں بھی اپنے موجودہ اور نئے بین الاقوامی طلبہ کے لیے متبادل راہیں تلاش کر رہی ہیں، جن میں انہیں امریکہ سے باہر کیمپسز میں منتقل کرنا بھی شامل ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ پر یہ الزام لگاتے ہوئے بین الاقوامی طلبہ کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی کہ وہاں “لبرل تعصب اور یہود دشمنی’’ کا غلبہ ہے۔ تاہم، ایک جج نے اس پابندی کو عارضی طور پر روک دیا ہے، جس سے اس کے فوری نفاذ میں تاخیر ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی طلبہ کے ویزہ پراسیس، سکیورٹی سکریننگ، اور سوشل میڈیا جانچ کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ کچھ طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور بعض کو اسرائیل مخالف مظاہروں میں شرکت کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا۔ٹرمپ کی اس مہم سے امریکی یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہو سکتی ہیں۔ 1.1 ملین سے زائد بین الاقوامی طلبہ ہر سال امریکی معیشت میں تقریباً 45 بلین ڈالر کا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر طلبہ کا تعلق چین اور بھارت سے ہوتا ہے۔ نیٹ ورک فار انٹرنیشنل ایجوکیشن نے حکومت کے ان اقدامات پر شدید تنقید کی ہے اور انہیں تعلیمی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ہارورڈ نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف عدالت کا رخ کر لیا ہے۔ یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر کے مطابق، ہارورڈ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی منصوبے بنا رہا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ اور اسکالرز اپنی تعلیم اور تحقیق جاری رکھ سکیں۔