ہمارے بچوں کے لئے ایک محفوظ ہندوستان کی تشکیل عمل میں لائیں

,

   

عصمت ریزی کے واقعات پر سیاست سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا سماجی احساس اور سنجیدگی طاق پر ہے

نئی دہلی۔ ضلع علی گڑھ کے تاپال ٹاؤن میں امن آہستہ آہستہ بحال ہورہا ہے۔ تاہم ایک دہشت کا ماحول اب بھی بنا ہوا ہے۔

یہ ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے اندر کچھ نہ کچھ اندرونی خوف ہے جو ہم پر حاوی ہورہا ہے‘ وہیں یہ ایک کاپی کرنے والا میکانزم ہوسکتا ہے‘ ہر ایک واقعہ ہمیں کم اور الجھن زدہ کررہا ہے۔

اگر آپ کو یاد ہوگا تو الور ضلع میں 26اپریل کے روز پیش ایا اجتماعی عصمت ریزی کا افسوس ناک واقعہ۔

ایک دلت جوڑا موٹرسیکل پر جارہا تھا جس کو چھ لوگوں نے روکا اور شوہر کے سامنے عورت کی اجتماعی عصمت ریزی کی۔ ان لوگو ں نے اس کا ایک ویڈیو بھی بنایا اور سوشیل میڈیاپر پوسٹ بھی کیاتھا۔

انہیں نہ تو خوف تھا او رنہ ہی شرم۔ ان کا احسا س تھا وہ اس جرم سے بچ جائیں گے۔ ابتداء میں ایسا لگا کہ ان پر مقدمہ درج نہیں ہوگا کیونکہ پولیس نے 7مئی تک اس کیس میں ایف ائی آر درج نہیں کی تھی۔

معاملہ یہ نہیں کیاجرم کیاہے‘ مجرم ہمیشہ اپنے پیچھے کچھ شواہد چھوڑ دیتا ہے۔

الور میں مذکورہ ویڈیو جو پورے معاملے پر مشتمل ہے وہ سوشیل میڈیا پر موجود تھا۔وزیراعظم نے اس کا ذکر کیا او رراہول گاندھی بھی متاثر ہ سے ملاقات کرنے کے لئے گئے تھے۔

اب عصمت ریزی کرنے والے جیل کی سلاخو ں کے پیچھے ہیں۔ واقعہ اس وقت سرخیوں میں جب عورتوں کی حفاظت کا معاملہ پر ایک مرتبہ اٹھایاگیا۔

کتھوا معاملے کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں۔عدالت کے پچھلے ہفتہ اس کیس پر اپنا فیصلہ سنا یاہے۔ عدالت نے تین ملزمین پر ایک مندر کے اٹھ سال کی معصوم کے ساتھ عصمت ریزی کا فرد جرم عائد کرتے ہوئے عمر قیدکی سزاء سنائی۔

مگر ان کا کیا جو لوگ اس سانحہ کو اپنے سیاسی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال کررہے ہیں‘۔دوریاستی وزرا نے اس سارے واقعہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔

ہم نے وہ نعرے بھی سنے جو مجرموں کی معصومیت کا دعوی کررہے تھے۔

مگر تاپال کے واقعہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت کوئی بھی رہے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ ہر معاملے میں سیاست داخل ہوکر معاملے کو بگاڑنے کاکام کررہی ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ لوگوں کے ذہن سے کتھوا کی کیس کی متاثرہ کا اثر نہیں گیاہے۔

اور ایساہی آج تاپال کے معاملے میں ہورہا ہے۔ ہرموقع پر ہندوستانیو ں کا ایک حصہ متاثرہ او رمجرموں کی مذہبی اور طبقہ وار پہچان کو ظاہر کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

یہ سب سے خطرناک رحجان ہے۔ قومی جرائم کی تفصیلات بیور کی جانب سے انکشاف کردہ تفصیلات پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پانچ سال کے بعد معصو م بچیوں کے ساتھ عصمت ریزی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

سال2012میں 17سال یااس سے کم عمر کی لڑکیو ں کی عصمت ریزی اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات 8541ہیں۔ ان میں 2016میں 19765تک کا اضافہ ہوا ہے۔

سال2012یہ وہی سال تھا جب دہلی میں اجتماعی عصمت ریزی کا واقعہ رونما ہوا تھا۔اس کے بعد پارلیمنٹ نے عصمت ریزی جیسے واقعات سے متعلق جرائم پر سخت قانون بنائے۔

باوجود اس کے یہ ہر روز ملک میں عصمت ریزی کے 106واقعات رونما ہورہے ہیں

۔اور چالیس فیصد اس کا شکار معصوم لڑکیاں ہیں۔ خاطی کم مذاحمت کرنے والے بچوں کا انتخاب کررہے ہیں اور یہ ہمارے سماج کا سب سے بدنما داغ ہے۔