ممبئی۔ میں شمالی ممبئی کی ایک ہاوز سوسائٹی کی کمیٹی میں بیٹھاہوں جہاں پر ہماری اصولی سرگرمیوں میں تضاد ہوتا ہے۔ جہاں پر ایک رکن ہمیں انتخابی طریقہ کار میں خرابی کے لئے عدالت لے جارہا ہے‘ تو دوسرا سوسائٹی کے پلاٹ کو کسی ایک دستاویز کے بغیر اپنے دوست کو لیز پر دینے کے عمل کی تحقیقات کی ہے۔
جب بدعنوانیاں منظرعام پر ائیں تو میں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا‘ کون یہ بھوری لوگوں کی گینگ سے لڑنا چاہتا ہے؟۔
اسوسیشن کے خوف سے شرمند ہوکر میں نے یہاں تک ان کوتاہیوں کے متعلق درخواست دائر کرنے کی بھی دھمکی دی۔مگر پھر ایک کیس ایک تحریری درخواست میں کوٹس کیساتھ اس کمیٹی پر ایک تحریری درخواست دائر کردی۔
مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میری کمیٹی کے ساتھ شادی ہوگی ہے کیونکہ اب بچ کر نکل بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں دیکھائی دے رہا تھا۔
شائد نوجوان ہندوستانیوں کا بھی حکومت کے متعلق اسی طرح کا خیال ہے۔نوجوان ہندوستان دشمن قوانین اور سیول لبرٹیز کے خلاف اپنی جنگ نہیں لڑرہا ہے بلکہ وہ ایک لازوال جنگ کے آغاز کرچکا ہے
۔نوجوان لوگوں نے تسلیم کررہے ہیں کہ یہ عمر حکمت کی تخصیص کا نہیں ہے۔اسی وجہہ سے نوجوان ہندوستان سڑکوں پر ہے۔
ستہ گرہ جو ایک اسناپ چاٹ تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اب یہ ایک اخلاقی‘ عجیب‘ پرجوش عمل جو ایک دن ایک غیراخلاقی‘ بے غیرت‘ آمریت کو شکست دے گا۔
یہ عوامی تخیل کو محدود کرنا‘ اوربڑھتاہوئی اجتماعات اس بات کو یقین ہیں کہ یہ لڑائی صرف سی اے اے اور این آرسی کے خلاف نہیں ہے۔
یہ لڑائی نااہل حکمرانی کے خلاف ہے۔ اس حکومت نے خلفشار کی سیاست میں مہارت حاصل کرلی ہے۔
آسام میں علاقائی لسانیت کو بچانے کے لئے جدوجہد چل رہی ہے‘ تو ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
گمراہ کن پروپگنڈوں کا استعمال‘بچوں کی تصویروں پربھگوا ٹوپی پہناکر وزیرداخلہ امیت شاہ کی گود میں بچا تھامانا۔ یہی انتخابی حربوں کا استعمال کیاجارہا ہے