ہندوپارٹیوں سے سپریم کورٹ نے کہا’مندر پر بابری مسجد کی تعمیر ثابت کریں‘۔

,

   

ایودھیا مورتی رام للا ویراجمان کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے ایس ویدیاناتھ نے ارکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے کی گئی کھدائی پر مشتمل رپورٹ حوالے کے طور پر پیش کی۔

نئی دہلی۔ایک قدیم مندر یا پھر کسی ہندو مذہبی ڈھانچہ کے باقیات پر بابری مسجد تعمیر کے دعوی کے ثبوت پیش کرنے کا جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے ہندوپارٹیوں سے استفسار کیاہے۔

بنچ میں شامل جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے سینئر ایڈوکیٹ سی ایس ویدیاناتھ جو ایودھیاکی مورتی رام للا وراجمان کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے تھے سے استفسار کرتے ہوئے

کہاکہ ”پچھلے دو صدیوں سے ہم نے دیکھا ہے کہ ندیوں کے کناروں پر آبادیاں بسائیں گئی اور انہیں برباد کیاگیا۔

وہ وہاں پر موجود ڈھانچوں پر تعمیر ات انجام دئے۔ مگر اس بات کاثبوت کہ مبینہ کھنڈر یا منہدم عمارت(جس پر بابری مسجد کی تعمیر) عمل میں لائی گئی تھی وہ ایک مذہبی فطرت کا حصہ تھی“۔

جسٹس بابڈوبھی اس بنچ کا حصہ ہیں جس کی نگرانی چیف جسٹس آف انڈیا کررہے ہیں۔ بابڈو نے ویدیاناتھ سے استفسار کیاکہ وہ اپنے اس بحث کو کہ وہاں پر مندر تھا او روہ یہ بھی کہ وہ بھگوان رام کا مندر تھا ثابت کری

ں۔ایودھیا مورتی رام للا ویراجمان کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے ایس ویدیاناتھ نے ارکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے کی گئی کھدائی پر مشتمل رپورٹ حوالے کے طور پر پیش کی‘ جس میں بتایاگیا ہے کہ دوصدی پیچھے کا مندر کھدوائی کے دوران برآمد ہوا ہے اور مسجد کی سائیڈ پر ہندونقش نگاری ملے ہیں۔

مسٹر ویدیاناتھ نے بنچ سے کہاکہ یہاں پر کوئی دیکھانے کے لئے نہیں سوائے زیر زمین ڈھانچہ کے جس پر بابری مسجد کی تعمیر کی گئی ہے وہ بھگوان رام کی مندر سے منسوب ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا کی نگرانی میں سنوائی کرنے والی دستور بنچ کی جانب سے مندر پر مسجد تعمیر کے دعوی کے ثبوت مانگنے پر مسٹر ویدیاناتھ نے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور ایس اے بابڈو کی دستو کا جواب دے رہے تھے۔

مگر لوگوں کے غیرمعمولی عقیدہ اوراعتقاد نے ”امکانات کو فروغ دیاہے“ جس سے یہ دیکھائی دیتا ہے کہ وہ حقیقت میں بھگوان رام کا مندر تھا۔

مسٹر ویدیاناتھ نے تصویریں اور کچھ تحریرات پر مشتمل فوٹوگرافس پیش کیاجس میں پایاگیاہے کہ بابری مسجد کاڈھانچہ کارسیوکوں کے ہاتھوں 6ڈسمبر1992کو مہندم کئے جانے سے قبل‘

اسبات کا اشارہ کرتا ہے کہ وہ درحقیقت ہندوؤں کی ایک مقدس اور روحانی جگہ تھی۔

مذکورہ سینئر وکیل نے پلرس پر تصویروں کو حوالہ دیا جس میں شیر کا عکس چمک رہا ہے۔

انہوں نے داخل کیاکہ”اسطرح کی تصویریں اسلامی عمل کے عین برعکس ہیں۔ وہ (مسلم) مساجد میں کسی انسان‘ چرند پرند کی تصویر نہیں رکھتے۔

ڈھانچے(بابری مسجد) پر مشتمل تصویریں اور باقیات سے وہ حقیقت میں مسجد تھی ہیں نہیں۔اس طرح کی چیزیں عام طور پرمساجد میں دیکھائی نہیں دیتی ہیں“۔

محض اس لئے مسلمان بابری مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اس لئے انہیں مالکانہ حق نہیں دیاجاسکتا ہے‘ مسٹر ویدیاناتھ نے اپنی بحث میں یہ بات کہی۔

انہوں نے کہاکہ جس کسی گلی کو عبادت کے لئے استعمال کیاجاتا ہے تو اس کومسجد قراردینے کا دعوی نہیں کیاجاسکتا۔اس کے علاوہ کھدوائی میں کوئی بھی مسلم نوادرات نہیں ملے۔

مگر جسٹس چندراچوڑ نے استفسار کیاکہ کس طرح کھدوائی کے دوران انسان اورجانوروں کی ڈھال کی صورت میں برآمد چیزوں کو کسی روحانی چیز سے کس طرح منسوب کیاجاسکتا ہے۔

جسٹس چندرا چور کا مشاہد ہ ہے کہ ”یہ محض انسانی یا جانوروں کی ڈھال ہوسکتے ہیں‘ اور یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی مذہبی چیز کی نمائندگی کریں“۔

متنازعہ مقام جس کو صدیوں سے ہندووؤں کا مقدس مقام ثابت کرنے کے لئے کی گئی کھدوائی کے دوران برآمد اشیاء پر مشتمل ایک سو فوٹوگرافس مسٹر ویدیاناتھ کی جانب سے پیش کئے جانے کے بعد مذکورہ جج کا ریمارک سامنے آیاتھا۔

مسٹر ویدیاناتھ نے برآمد چیزوں کی تصویروں کے متعلق کہاکہ یہ نہ صرف جانوروں یاانسانی قد وخال پر مشتمل تصاویر ہیں بلکہ محکمہ آرکیالوجی نے اس کوہزاروں سال کی تہذیب کا اثاثہ بھی تسلیم کیاہے