یوپی انتخابات کے بعدکیاکانگریس میں بڑا کردار نبھائیں گی پرینکا گاندھی؟۔

,

   

نئی دہلی۔ احمد پٹیل کے گذر جانے کے بعد‘ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی ووڈرا پارٹی کومشکل حالات سے نکالنے والے کے طور پرابھری ہیں اورساری شکایتیں اس کے حل کے لئے ان کے ہی دروازے پر پہنچ رہی ہیں۔ حال ہی میں اتراکھنڈ بحران اس ہفتہ سابق چیف منسٹر ہریش روات کے پارٹی کونشانہ بنانے کے ساتھ منظرعام پر آیاتھا‘ پرینکا نے معاملے میں مداخلت کی اور ناراض لیڈر کوتسلی دلائی۔


پارٹی کے داخلی خلفشار کو حل کرنے میں مذکورہ گاندھی نے ایسا پہلی مرتبہ اپنے رول ادا نہیں کیاہے۔ وہ پنجاب میں کافی کارگرد تھیں اور امریندر کوہٹانے اور نوجوت سنگھ سدھو کو پارٹی کی ذمہ داری حوالے کرنے کے پیچھے حقیقی ذہن ان ہی کا ہے۔

انہوں نے راہول کے ساتھ ملکر حکومت میں سچن پائلٹ کے وفاداروں کو شامل کرنے کے لئے اشوک گہلوٹ پر زوردیاتھا۔ ماہرن کا خیال ہے کہ راہول گاندھی کے ساتھ جو قائدین ہم آہنگ نہیں ہیں ان تک رسائی کرنے اور انہیں راضی کرنے کے لئے یو پی انتخابات کے بعد کانگریس پارٹی پرینکاگاندھی کوایک بڑی پیشکش کرے گی۔اس کے بعد جی 23گروپ اور ناراض قائدین جنھوں نے لکھیم پور کھیرے واقعہ کے بعد یوپی میں ان کی کام کی ستائش کی ہیں ان کو واپس لانے کی ذمہ داری بھی تفویض کی جاسکتی ہے۔

وہیں بہت ہی کم وقت میں مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے یوپی میں پارٹی کونمایاں کرنے کا سہرہ بھی ان کے سر جاتا ہے‘ مذکورہ موجودہ سروے دیکھا تا ہے کہ ریاست میں انتخابی طور پر کانگریس فروغ نہیں پاسکتی ہے۔

مذکورہ پارٹی تاہم انہیں اسٹار مہم کار کے طور پر دیکھ رہی ہے اور ان کا”لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘نعرے قومی سطح پر لوگوں کومتوجہہ کررہا ہے اورتنظیمیں اس نام پر مارتھن رکھ رہیں جس میں بڑے پیمانے پر لوگ شامل ہورہے ہیں اور کانگریس اس کو مذہب ذات پات کی سیاست کے متبادل کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

جب کانگریس جنرل سکریٹری نے خود کو مہم میں جھونک دیا اس وقت ملک کویڈ19وباء کے سایہ میں تھا۔پھر ہتھرس اور سونبھدرا میں ان کی فعال مداخلت نے اپنی جانب توجہہ مبذول کروائی۔ مہاجرین بحران کے عروج کے وقت میں انہوں نے متاثرہ لوگوں کی منتقلی کے لئے بسوں کی پیشکش کی تاکہ وہ اپنے گھر واپس جاسکیں‘ اورہمدردی حاصل کی ہے۔ کسانوں کے احتجاج کے دوران بھی وہ سب سے آگی رہیں۔

مگر دوسری لہر نے ملک کو متاثر کیاتھا۔ اترپردیش میں اگلے سال اتراکھنڈ او رپنجاب کے ساتھ اسمبلی انتخابا ت ہونے جارہے ہیں‘ مذکورہ کانگریس کی قیادت اس بات پر بحث کررہی ہے کہ پارٹی کے قومی سطح پر کردار ادا کرنے میں انہیں اہم ذمہ داریاں تفویض کی جانی چاہئے۔

بہت سارے کانگریس قائدین اس موضوع پر کھل کر با ت کررہے ہیں۔

جیسے آچاریہ پرمود کرشنم نے پرینکا کوپارٹی کاصدر بنانے کی تک بات کردی ہے۔ دیگر یہ کہ جو لوگ راہول گاندھی کے دفتر کی جانب سے کام کرنے کے طریقے سے خوش نہیں ہیں‘ ان کامشورہ ہے کہ سونیاگاندھی کو چاہئے کہ وہ صدر برقرار رہیں اور پرینکا کو اپنا نائب انچارج نارتھ انڈیا بنائیں۔

جب قیادت کے بحران کا ٹکراؤ کانگریس سے ہوا تو وہاں پر ایک کمیٹی سونیا گاندھی کی مدد کے لئے بنائی گئی تھی۔ پچھلے سال ستمبرمیں اے کے انتھونی کے ساتھ ایک کمیٹی جس میں متوفی احمد پٹیل‘ امبیکا سونی‘ کے سی وینو گوپال‘ مکل واسنک‘ اوررندیپ سرجیولا ممبرس کے طورپر شامل تھے۔

احمد پٹیل کی موت کے بعد کبھی کبھی اس کمیٹی کے اجلاس ہورہے ہیں۔کانگریس پارٹی کے دستور میں نائب صدر کا زمرہ نہیں ہے مگر پچھلے اوقات میں ارجن سنگھ اور راہول گاندھی اس عہدے پر فائز رہے ہیں۔

بعض کانگریس قائدین کا ماننا ہے کہ پرینکا کے کام کرنے کا طریقہ کافی نرم ہے۔ وہ صبر واستقلال کے ساتھ آپ کی بات سنتی ہیں اور وہ راجستھان اورپنجاب میں بحران کوختم کرنے میں اہم رول ادا کیاہے۔

مذکورہ کانگریس کواتراکھنڈ‘ پنجاب‘ یوپی‘ گوا اورگجرات میں سخت مقابلہ ہے‘ جہاں پر و ہ2022میں انتخابات لڑنے جارہی ہے وہیں ایم پی‘ راجستھان اورچھتیس گڑھ میں 2023میں انتخابات متوقع ہیں‘ لہذا ان کو بڑا کردار تفویض کرنے کی بات کرنا‘ مطلب پارٹی مزید جوش اورولولہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔

کانگریس قائدین کے ایک حصہ نے اشارہ دیاہے کہ راہول گاندھی بغیر کسی عہدے کے پارٹی کو سنبھالیں گے۔ ان قائدین کا کہنا ہے کہ وہ مختلف معاملات پر حکومت کو نشانہ بنارہے ہیں۔ معاشی بحران او روباء پر مسلسل وزیراعظم پر ان کے حملوں کی حقیقت کو ان پر تنقید کرنے والوں نے بھی تسلیم کیاہے