آر ایس ایس اور بی جے پی میں دوریاں

   

عام انتخابات میں بی جے پی کو کوئی مدد نہ کرنے ہندوتوا تنظیموں کا فیصلہ

حیدرآباد۔20۔اگسٹ(سیاست نیوز) آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان دوریاں بڑھنے لگی ہیں یا آر ایس ایس نے عوام کے تبدیل ہورہے موڈ کو دیکھتے ہوئے آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کے لئے سرگرم کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے!2024 عام انتخابات میں آر ایس ایس اور ہندوتوا تنظیموں نے بی جے پی کی مدد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس با ت کی کوشش کی جار ہی ہے کہ ملک میں اقتدار کی تبدیلی کی راہ ہموار کی جائے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان پیدا ہونے والی دوریوں کے سلسلہ میں مختلف قیاس کئے جارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی مدد کے سواء آر ایس ایس اور دیگر ہندو توا تنظیموں کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ آر ایس ایس کے اہم عہدوں پر بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے حامی افراد کو پہنچاتے ہوئے آر ایس ایس پر بھی اپنا کنٹرول کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے لیکن اب آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں جہاں ملک میں ہندتوا کے علاوہ ہندستان کو ہندوراشٹر بنانے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا ان شاکھاؤں میں بھی اب ملک میں مہنگائی کے علاوہ چین کی سرحد میں چینی افواج کے داخلہ ‘ ملک میں افراتفری کے ماحول‘ تجارتی خاندانوں کو حکومت کی جانب سے پہنچائے جانے والے فوائد پر بات چیت ہونے لگی ہے جو کہ آر ایس ایس کی مرکزی قیادت کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بوکھلاہٹ کا شکار بنا رہی ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں جہاں ٹماٹر ‘ پٹرول ‘ ڈیزل کے علاوہ چاول کی قیمتوں میں اضافہ نے عام شہریوں کو مشکلات کاشکار بنایا ہے وہیں ملک بھر میں نفرت کے ماحول سے اکثریتی طبقہ کو ہونے والے نقصانات کے متعلق بھی اب آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں بات کی جارہی ہے اور کہا جار ہاہے کہ منظم تنظیم کے اثر کو ختم کرنے کے لئے حکومت نے علاقہ واری اساس پر جس طرح سے کٹر پسند تحریکات کو بڑھاوا دیا ہے اس کے نتیجہ میں آر ایس ایس کا اثر کمزور ہونے لگا ہے ۔ 9 سالہ دور اقتدار کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کی کارکردگی کے متعلق آر ایس ایس خوش نہیں ہے اس کا بات کا کئی مرتبہ اظہار کیا جاچکا ہے اور آرایس ایس کے ترجمان میں بھی مرکزی حکومت کو آر ایس ایس نے متنبہ کیا لیکن اب یہ بات عام ہونے لگی ہے اور کہا جا رہاہے کہ شاکھاؤں میں مخالف حکومت تبادلہ خیال اور مرکز ی حکومت کی ناکامیوں کے علاوہ عام شہریوں کے مسائل پر گفتگو کے باعث آر ایس ایس کی قومی قیادت نے بی جے پی سے ناراضگی کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نریندرمودی اور ان کے دست راست تصور کئے جانے والے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو آر ایس ایس کی جانب سے 2024 عام انتخابات کی حکمت عملی کی تیاری کے سلسلہ میں آگاہ کئے جانے کے بعد
بی جے پی کی مرکزی قیادت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے اور اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ آر ایس ایس کی قومی قیادت کو 2024 عام انتخابات میں حسب سابق متحرک رہنے کے لئے آمادہ کیا جاسکے ۔ ان کوششوں کے دوران بی جے پی قائدین آر ایس ایس کے ذمہ داروں کو اس بات کا حوالہ دے رہے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں آر ایس ایس کی صد سالہ تقاریب منعقد ہونے جا رہی ہیں اور ان صد سالہ تقاریب کا انعقاد مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی صورت میں بڑے پیمانے پر کیا جاسکتا ہے لیکن آر ایس ایس کے ذمہ دار اپنی شاکھاؤں سے موصول ہونے والی رپورٹس اور منڈل ‘ ضلع اور صوبائی ذمہ داروں کے درمیان جاری بات چیت کے علاوہ عوامی رائے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ فی الحال عوام میں اپنی شبیہ کو بگاڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں اس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے نفرت کو ہوا دینے کے لئے ریاستی اور شہری اساس پر جو چھوٹی چھوٹی تنظیموں کے ذریعہ نفرت کے ماحول کو فروغ دینا شروع کیا ہے اس بات سے بھی آر ایس ایس قائدین اپنے وجود کے متعلق متفکر نظر آرہے ہیں ۔ملک بھر میں عوام کی بڑی تعداد میں مخالف حکومت رجحان کو حاصل ہونے والے فروغ نے جہاں آر ایس ایس کو بی جے پی سے دوری اختیار کرنے کے متعلق غور کرنے پر مجبور کیا ہے وہیں ریاستی سطح و ضلعی سطح پر زہر پھیلانے والی تنظیموں میں ہونے والے اضافہ نے بھی انہیں بی جے پی کو ’’رام راجیہ ‘‘ کا درس دینے پر مجبور کردیا ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ سرگرم نہ سہی لیکن آر ایس ایس بی جے پی مدد سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔