آر ایس ایس ہر اس قانون کی حمایت کرے گی جس سے ”لوجہاد“ کو روکا جاسکتا ہے۔ ہوسابلا

,

   

بنگلورو۔نو منتخب جنرل سکریٹری راشٹرایہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) دتاتریہ ہوسابلا نے ہفتہ کے روزیہ کہاکہ آر ایس ایس ایسے کسی بھی قانون کی حمایت کرے گی جس سے دھوکہ کی شادی کے ذریعہ لڑکیوں کو ورغلایہ جاتا ہے اور اس کی واحد مقصد تبدیلی مذہب یا پھر دوسری ممالک میں ان کی تجارت کرنا ہوتا ہے۔

آر ایس ایس کے ”لوجہاد“ کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ہوسابلا نے کہاکہ کرناٹک اور کیرالا ہائی کورٹس نے لوجہاد کے مشق کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ”پیار اور شادی کے نام میں عورتوں سے دھوکہ کیاجارہا ہے اور ان کامذہب تبدیل کرنے کے لئے جعلسازی کی جارہی ہے یا پھر ان کا اغوا کرکے معاشرے میں فساد برپا کیاجارہا ہے۔

اس قسم کے معاملات کو روکنے کے لئے کئی ریاستیں قوانین لارہے ہیں اور آر ایس ایس ان قوانین کی حمایت کررہی ہے“


کس نے ”لوجہاد“ کی اصطلاح تیار کی؟
شادی کے نام پر زبردستی تبدیلی مذہب کا مطالب اخذ کرنے کے لئے لوجہاد کی اصطلاح پیش کی گئی ہے۔ ہوسابلا نے دعوی کیاہے کہ آر ایس ایس نے یہ اصطلاح نہیں دی ہے‘ مگر کیرالا اور آسام کی عدالتیں نے دی ہے‘ جہاں پر پہلی مرتبہ اس اصطلاح کا استعمال ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”اس دھوکہ باز طریقے کا استعمال لڑکیوں کو شادی اور تبدیلی مذہب کے لئے ورغلانے کے لئے قابل مذمت ہے اور اس کی مخالفت کی جانی چاہئے۔

موثر قوانین اور ضوابط کو متعارف کروایاجانا چاہئے اور آر ایس ایس اس قسم کے قوانین کی حمایت کرے گی“۔ ہوسابلا نے زوردے کر کہاکہ آر ایس ایس اپنے یہ نظریہ کبھی نہیں رکھتی ہے کہ اپنی مرضی کے لڑکے سے کسی لڑکی کو شادی نہیں کرنا چاہئے


دھوکہ کی شادی کو منظور ی نہیں دی جانی چاہئے۔ ہوسابلا
انہوں نے کہاکہ ”آر ایس ایس کے کٹر حامی ہونے کے باوجود کئی لوگوں نے دوسری طبقات میں شادیاں کی ہیں۔

ہم ترقی پسند سونچ کے حامل لوگ ہیں۔

مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ لڑکیوں کو دھوکہ کے طریقے ورغلایاجائے‘ یا پھر کسی ایک مخصوص مذہب میں شامل کرنے کے مقصد سے یہ کام کیاجائے یاپھر دوسرے ممالک میں انہیں فروخت کرنے کے لئے اس کام کو انجام دیاجائے۔

اس طرح کی دھوکہ باز شادی کو کسی بھی مقام پر منظوری نہیں دی جائے گی۔

یہ عورت کے وقار کا معاملہ اور کچھ نہیں“۔انہوں نے کہاکہ ”آر ایس ایس متحدہ معاشرہ کی تشکیل کے لئے ہمیشہ کام کرتا ہے۔ ہمارے پاس اپنے کام میں ذات پات کوئی معنی نہیں رکھتی ہے“