آزادی اور حریت زندگی کا بنیادی حق ہے

   

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
آزادی اورحریت کسی بھی انسان کی زندگی کابنیادی حق ہے جس کے بغیرزندگی کا تصورناممکن ہے کسی کوقیدیازنداں کے حوالہ کرکے آسکی آزادی کوچھیننااس فردکی زندگی کے جینے اوراقدارحیات کو کچلنے اور زندہ درگورکرنے کے مترادف ہے-قومیں آزادی سے پنپتی ہیں اورترقیوں کے زینے طئے ہے دنیاکے ہراقتداراعلی کواس کاخیال رکھنابے حد ضروری ہے پیغمبراسلام نے انسانی حقوق میں آزادی کوبڑی اہمیت دی ہے آپ کے بعدمسندخلافت وقیادت پرفائزہوئے اسلامی خلفائے نے آزادی فکراورآزادی اقدارانسانیت کی روایت کوبرقراررکھتے ہوئے ایک عالمی مثال قائم کی جن میں خلیفہ دوم امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کانام نامی نمایاں مقام رکھتاہے -آپ نے اپنے دورخلافت میں عوام کواس بات کاحق دے رکھاتھاکہ وہ ان کے طرزخلافت کے بارے میں کھل کراپنے خیالات اوراحساسات کوبیان کرسکتے ہیں اس طرزعمل سے بہتر خدمت اور قیادت کے مفیداورکارآمدنتائج برآمدہوتے ہیں اسلام کی تاریخ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ ایک ایسا عہدِ زریں ہے جو کہ رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ معمول کے حالات ہوں یا ہنگامی حالات قحط ، سیلاب، زلزلہ اور جنگ ہر دو حالات میں عوام کی رفاہ وبہبود کے لیے تاریخی اقدامات کئے گئے محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا۔باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے۔ نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا گیا۔ ڈیم اور نہریں بنائی گئیں۔ زمینوں کو مزارعین میں تقسیم کردیا گیا۔ باقاعدہ حساب کتاب کے لئے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا۔حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے ’’جریب‘‘ کے ذریعے زمین کی پیمائش کی اور اجناس پر ٹیکس مقرر کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کے شعبہ کو بہتر بنایا۔سن ہجری کا آغاز۔ باجماعت نماز تراویح۔تمام محکمہ جات کے لئے دفاتر کا قیام۔ حرم اور مسجد نبوی کی توسیع۔ نہرابوموسیٰ، نہر معقل، نہر سعد۔جہاد کے لئے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش کا اہتمام، محکمہ عدالت اور قاضیوں کا تقرر، امیرالمومنین کا لقب اختیار کرنا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا، مردم شماری، نئے شہروں اور صوبوں کا قیام،محصول اور لگان، حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت،راتوں کا گشت، فوجی چھائونیوں کی تعمیر،پرچہ نویسوں کا تقرر، مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کیلئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام، بچوں کے وظائف،مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کیلئے وظائف، مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں،قیاس کا اصول رائج کیا، فرائض میں عدل کا مسئلہ ایجاد کیا، فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ، تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ ر کی، مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا، مساجد میں روشنی کا اہتمام، اور عشر اور زکوٰۃ کے علاوہ عشور کی اصطلاح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعارف کرائی۔امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت، فہم و تدبر، سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت، جنگی حکمت عملی، منفرد انداز حکمرانی اور روحانیت کا وہ حسین امتزاج ہے کہ جس نے انہیں تاریخ عالم کا منفرد فاتح اور عادل حکمران بنادیا۔اندرونی خلفشار اور برائیوں پر قابو پانا ایک اچھے حکمران کی ضرورت ہوا کرتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے اس مسئلہ کے حل کیلئے پولیس کے محکمہ کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی اور جرائم کی روک تھام کے لیے اس محکمے کو منظم کیا۔ سیدنا فاروق اعظم نے لوگوں کی فلاح اور بہتری کیلئے بہت سے ایسے قوانین نافذ کیے جن کا تقاضا انسانی اخلاقیات کرتی ہیں۔
اب یہاں پر اپنا ملک ہندوستان کاتذکرہ کررہے ہیں جوہمارے اکابرین کی حب الوطنی جذبہ ایثاروقربانی نے تاریخ کو انقلاب آفرین بنادیابلکہ اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرکے آزادی وطن کی بنیادرکھی اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب مائل بہ غروب تھا اور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہورہی تھیں ، انگریز جب ہندوستان پہنچے تھے تو تاجروں کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انھیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا، لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، انھوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نااتفاقی سے فائدہ اٹھاکر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک ہوگئے اور ہندوستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کوبے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیٔ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج الدولہ اور ٹیپوسلطان شہید اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام ترقوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی پھر یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور اب علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکار نے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفا کشی عزائم و ہمم ، صبر آزمائی ، دور اندیشی اور ایثار و قربانی نے اس دور کی تاریخ کو انقلاب آفرین بنادیا اور مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی ،علامہ فضل حق خیرآبادی مولانا اسمٰعیل شہید، مولانا عبد الحئی اور آگے چلیں شیخ الہند، مولانا گنگوہی، حافظ ضامن شہید ، مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے پیکر استقلال اور کوہ گراں پیدا ہوئے ، جنھوں نے اپنی تقریروں، تحریروں؛ بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادیٔ وطن کی بنیاد رکھی ہندوستان کوآزاد کرانے اورآج تک قائم اوردائم رہنے میں علمائے کرام کابہت بڑاحصہ رہا ہے۔