آسام این آر سی عمل روکنے پر مرکز کی سرزنش

   

عدالت کی تمام کوششوں کو تباہ کردینے پر سپریم کورٹ کا اظہار برہمی ، وزارت داخلہ کا ردعمل مسترد

نئی دہلی۔ 5 فروری (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آسام این آر سی کارروائی روک دینے پر مرکز کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت، آنے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران سکیورٹی فورسیس کی عدم دستیابی کا بہانہ بناتے ہوئے اس عمل کو معطل کرنا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس وقت برہمی کا اظہار کیا جب اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ آسام این آر سی کے عمل کو معطل کیا جانا چاہئے۔ لوک سبھا انتخابات کے لئے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ کے دن سے اس عمل کو روک دیا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ انتخابی انتظامات کیلئے سنٹرل آرمڈ پولیس فورسیس کی 167 کمپنیاں آسام این آر سی کام میں مصروف ہیں۔ انتخابات کے دوران تمام مسلح پولیس فورس کو لا اینڈ آرڈر کی برقراری کیلئے ملک کے دیگر حصوں کو بھیجا جائے گا۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس آر ایف نریمن پر مشتمل ایک بینچ نے کہا کہ ہمیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ نے این آر سی کا عمل جاری رکھنے کیلئے عذر پیش کیا ہے اور اس کی بہانہ بازی سے اس کورٹ کی جانب سے اب تک کی گئی تمام کوششیں تباہ ہوجائیں گی۔ بینچ نے کہا کہ اس نے این آر سی کو مکمل کرنے کیلئے 31 جولائی آخری تاریخ مقرر کی تھی

اور اس میں توسیع کی گئی لیکن اب بھی یہ کام مکمل نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ 3,457 ریاستی سرکاری ملازمین کو این آر سی کام کیلئے کھلی آزادی دی جائے۔ الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ وہ ان آفیسرس کو انتخابی عمل سے استثنیٰ دیا جائے۔ ان آفیسرس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے رتبہ کے عہدیدار شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ جب تک این آر سی کا عمل پورا نہیں ہوتا، ان عہدیداروں کا تبادلہ نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں وزارت داخلہ کے عہدیدار کے جواب پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکز کی سرزنش کی۔ وزارت داخلہ کے عہدیدار نے سپریم کورٹ کی عدم دستیابی کا عذر پیش کیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے برہمی کے عالم میں وزارت داخلہ کے عہدیدار سے پوچھا کہ آیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم معتمد داخلہ کو طلب کریں یا دیگر متعلقہ آفیسرس کو سمن جاری کریں۔ جب وینو گوپال اور سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت ِ آسام کی نمائندگی کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کی کوشش کی تھی تو بینچ نے کہا کہ قانونی آفیسرس کو ان عہدیداروں کی جانب سے مناسب طریقہ سے واقف نہیں کیا گیا ہے۔