گول پارا سپریڈنٹ آف پولیس وی وی راکیش ریڈی نے کہاکہ مذکورہ دستے کا ایک کمرے کے عارضی مکان سے متصل مدرسہ کو ڈھانے میں ’یقینا کوئی رول نہیں ہے“ ہے۔
داروگار الگا۔آسام کے ضلع گول پارا کے داروگار الگا چار کے گاؤں والوں کا بیان ایک تنازعہ کو جنم دے سکتا ہے جس کا کہنا ہے کہ پولیس کی ہدایت پر انہوں نے ایک مدرسہ کومسمار کیاہے جس کو سپریڈنٹ آف پولیس نے بے بنیاد قراردیاہے۔
مقامی لوگوں نے زوردے کر یہ کہاکہ ایک ساتھی گاؤں والوں کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا یاگیا جو دستہ سے رابطہ میں تھا اور اس نے لوگوں سے ڈھانچہ گرانے کو کہ تھا۔
تاہم مذکورہ پولیس نے ان الزامات سے انکار کیا اورکہہ رہی ہے کہ وہ صرف دو افراد کے مبینہ دہشت گردانہ تعلقات کی جانچ کررہی ہے جو فی الحال مفرور ہیں وہ اس مدرسہ میں درس دیاکرتے تھے۔
پولیس کے بموجب مذکورہ داروگار الگا مدرسہ اورا س سے متصل مکان منگل کے روز گاؤں والوں نے خود ہی اس کے ٹیچرس کے ”مشتبہ جہادی تعلقات“ کی جانکاری ملنے کے بعد مسمار کردیا‘ جو بنگلہ دیشی بتائے جارہے ہیں۔
ایک مقامی رحیم بادشاہ نے پی ٹی ائی کوبتایاکہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جس نے عمارت کوڈھانے کاکام کیا ہے۔ میں اس وقت اپنے جوٹ کے کھیت میں ندی کے کنارے تھا جب ایک گاؤں والے شکر علی نے مجھے مدرسہ کی عمارت کے پاس بلایاتھا۔
انہوں نے مجھ سے یہ کہاکہ اس کو مسمار کرنے میں مدد کے لئے دیگر پانچ چھ بھی لائیں۔ علی ایک خود ساختہ بی جے پی ورکر ہے۔ اس کی موٹر سیکل پر بی جے پی کا نشانہ کنول کا پھول ہے۔
اس کے مکان پر اس طرح کے کئی اور اسٹیکرس بھی ملیں گے۔ بادشاہ کادعوی ہے کہ ”جب میں نے علی سے پوچھا کیا کیوں یہ مدرسہ مسمار کررہے ہیں تو اس نے کہاکہ ایس پی(سپریڈنٹ آف پولیس) اور ڈی ایس پی (ڈپٹی سپریڈنٹ آف پولیس) نے مجھے یہ کرنے کوکہا ہے۔
جب میں مدرسہ پہنچا تو پہلے سے ہی وہاں پر میڈیاموجود تھا“۔ گاؤں کے دورے لوگوں نے بادشاہ کے بیان کی تصدیق کی ہے۔پوچھے جانے پر علی نے قبول کیاکہ میڈیا کو انہدام کی کاروائی کوریج کرنے کے لئے پہلے ہی مدعو کیاگیاتھااور ان کے سامنے ڈھانچہ گرایاگیاتھا۔ تاہم پولیس کی جانب سے مدرسہ کو منہدم کرنے کی بات پوچھنے پر وہ خاموش رہا۔
جب اس کے بیان پر تبصرے کے لئے رابطہ کیاگیاتبگول پارا سپریڈنٹ آف پولیس وی وی راکیش ریڈی نے کہاکہ مذکورہ دستے کا ایک کمرے کے عارضی مکان سے متصل مدرسہ کو ڈھانے میں ’یقینا کوئی رول نہیں ہے“ ہے۔
ریڈی نے فون پر پی ٹی ائی کوبتایاکہ”ہماری طرف سے گاؤں والوں سے اس کام کوانجام دینے کے لئے کوئی رابطہ نہیں کیاگیاتھا۔ اگر یہ منصوبہ ہوتاتو ضلع انتظامیہ اس کے مطابق اقدام اٹھاتے تھے“۔ریڈی نے کہاکہ گاؤں والوں کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ مدرسہ کے یہ اساتذہ کے اچانک دہشت گرد تنظیمو ں سے روابط نکل جائیں گے۔