آسام میں این آر سی فہرست کی اجرائی‘ سوالات‘ مایوسی اور ایک شخص کے پاس پیپرس سے بھرا بیاگ

,

   

برہم پترا وادی میں ایک بڑی تعداد میں بنگالی نژاد مسلمان ہوسکتا ہے کہ خارج کردئے گئے ہیں‘ باراک میں بنگالی ہندؤکے ایک بڑا حصہ مشتمل ہوسکتا ہے۔

مذکورہ این آرسی مسودہ میں آسام کے برہما پترا وادی کے ضلع کام روپ(دیہی) میں تناسب اخراج کی شرح (5.3فیصد)کافی کم ہے‘ جو ریاستی حکومت کی تفصیلات کے مطابق ہے۔

مگر مسلم اکثریت والے علاقے جیسے ہاتھی سالہ قابل غور اخرا ج ہے اور آخری لمحہ تک علاقے میں لوگوں کو سنوائی کے لئے نوٹسیں بھی جاری کی گئی ہیں۔

چونکہ قطعی فہرست 10بجے صبح ہفتہ کے روز قطعی فہرست ائی‘ اس میں این آ ر سی سیو ا کیندر ہستیالہ میں کے اپریٹر بھی شامل ہیں۔ جب فہرست کی جانچ کی گئی تو زین العابدین 29سالہ کو چھوٹا بھائی نور عالم(14)اٹھویں جماعت کا طالب علم کا نام فہرست میں شامل نہیں ہے‘ ان کے گھر سے محض ایک فرد کے نام خارج کیاگیاہے۔

عابدین نے کہاکہ عہدیداروں نے انہیں بھروسہ دلایا ہے کہ فکر کرنے کی ضرور نہیں ہے۔

انہو ں نے کہاکہ ”میں نے اسکول سرٹیفکیٹ جس پر ایجوکیشن افیسر کی دستخط ثبت ہے اور اس کا برتھ سرٹیفکیٹ بھی داخل کیا۔

میرے والدین اور میں پریشان تھے کہ آیا میرے چھوٹے بھائی کو غیرملکی ٹربیونل کھینچ کر لے جائے گا۔نور عالم کی عمر یہ تمام باتیں سمجھنے کی نہیں ہے“۔

عابدین جس کا دعوی ہے کہ وہ 2فبروری 2015سے این آ رسی کے لئے کام کررہے ہیں نے کو اس بات کا بھی ڈر ہے‘ نظام عمل سے واقفیت کے باوجود ان کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔

انہو ں نے کہاکہ ”گھر سے فون آنے کے بعد میں نے والدین کو تین مرتبہ فون کرکے پتہ لگایا کہ میرا چھوٹا بھائی کہاں ہے او رکیاکررہا ہے۔

میں امید کرتاہو ں کہ اس کو کوئی ”بنگلہ دیشی“ کے طور پر سلوک نہ کرے اور اس کو یہ کہہ کر نہ ستائے کہ اس کو تحویلی کیمپ بند کردیں گے“۔

این ایس کے اسٹانڈس کے مدمقبل اکرم حسین کی فارمیسی ہے۔ ہفتہ کے روز وہ اور ان کے ساتھی نے لیپ ٹاپ کی پیشکش سینکڑوں لوگوں کے لئے کی جو اپنا این آرسی موقف کی جانچ کے لئے این ایس کے پہنچے تھے۔ اخراج کی ہی ان لائن جانچ ہورہی ہے۔

پھر حسین کو احساس ہوا کہ اخراج ناموں میں ان کی بہنیں خاتون نیسا(50)اور رضیہ خاتون (45)کے نام بھی شامل ہیں۔ حسین نے کہاکہ ”ہمارے اٹھ بھائیوں بہنوں میں صرف یہ دونوں کے نام خارج ہیں۔

دونوں پڑھی لکھی نہیں ہیں اور اسکول کی سند ان کے پاس نہیں ہے۔ لہذا والد سے انہیں جوڑنے کے لئے مشکلات پیش ائیں‘ جن کی 1966کی ووٹرس لسٹ کا استعمال کیاگیا“۔

انہوں نے کہاکہ وہ مقابلے کے لئے تیار ہیں ”ہم سے جوکچھ ہوسکتا ہے وہ کریں گے‘ ایف ٹی جائیں گے‘ جہاں پر بھی رہے۔ ہم سوفیصد ہندوستانی کے حقیقی شہری ہیں“۔

ان کے ہم نامی اور اکرم حسین کے دوست جو ہستیالہ بھالو باری پنچایت پر مشتمل پانچ گاؤں کے سابق صدر ہیں پرسکون دیکھائی دے رہے ہیں۔

پوری فیملی کے واحد شخص جس کا نام این آر سی کے مسودہ میں شامل نہیں ہے وہ ان کی گیارہ سالہ بیٹی رخسانہ حسین ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ”رخسانہ کی برتھ سرٹیفکیٹ سے مسئلہ ہے۔ میں نے اس کا اسکول سند اور بینک کے دستاویزات داخل کئے ہیں۔جو مجھ سے جوڑے ہوئے ہیں“۔

تقریبا150کیلومیٹر دور شہاب الحق سکندرجو مسلم اکثریتی والے علاقہ میں شمار کیاجانے والے بارپیٹاضلع کے ایک کالج میں تاریخ کے لکچرر ہیں ”خارج کئے گئے لوگوں کے لئے“ کچھ مزید اقدامات کی تیاری کررہے ہیں۔

ان کے تمام گھر والوں او روالدین کو این آر سی کی قطعی فہرست میں جگہ مل گئی ہے۔تمام عمر کے لوگوں کے نام فہرست سے غائب ہیں

۔ خواتین اور کم عمر بچوں سے لے کر معمر افراد تک پریشان ہیں۔