آندھراپردیش میں مسلم ووٹ فیصلہ کن، تین پارٹیاں دعویدار

   

وائی ایس شرمیلا کی رائلسیما کے اقلیتوںپر توجہ، مذہبی تنظیموں کا جھکاؤ چندرا بابو نائیڈو کی طرف، ووٹ کی تقسیم روکنے حکمت عملی

حیدرآباد ۔ 3 ۔ اپریل (سیاست نیوز) آندھراپردیش کی سیاست میں تازہ ترین تبدیلیوں نے اقلیتوں کے ووٹ بینک کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے ۔ کانگریس پارٹی جو اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے ، اس نے وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی دختر وائی ایس شرمیلا کے ذریعہ پارٹی میں نئی جان پھونکنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ وائی ایس شرمیلا کو پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر مقرر کرنے کے علاوہ پارٹی نے کڑپہ لوک سبھا حلقہ سے انہیں امیدوار بنایا ہے ۔ متحدہ آندھراپردیش کی تقسیم سے قبل تک بھی آندھرا کے مسلم رائے دہندوں کی قابل لحاظ تعداد کانگریس کے ساتھ تھی۔ مسلمان روایتی طور پر کانگریس کا ووٹ بینک تصور کئے جاتے ہیں لیکن ریاست کی تقسیم کے بعد مسلمانوں میں چندرا بابو نائیڈو اور وائی ایس جگن موہن ریڈی کو اپنے ہمدرد کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ آندھراپردیش میں کانگریس کا عملاً صفایا ہوگیا تھا لیکن آنجہانی وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی دختر کی کانگریس میں شمولیت کے بعد امید کی جارہی ہے کہ کانگریس اپنے وجود کا احساس دلانے میں کم از کم کامیاب رہے گی۔ آندھراپردیش میں لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلی کے چناؤ میں ابتداء میں دو رخی مقابلہ دیکھا جارہا تھا لیکن وائی ایس شرمیلا کی شمولیت کے بعد سہ رخی مقابلہ رہے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں اہم پارٹیاں وائی ایس کانگریس، تلگو دیشم اور کانگریس کا کامیابی کیلئے مسلمانوں پر انحصار ہے ۔ گزشتہ پانچ برسوں میں وائی ایس جگن موہن ریڈی حکومت کی کارکردگی سے مسلمان مطمئن دکھائی نہیں دیتے ، لہذا انہوں نے چندرا بابو نائیڈو کی تائید کا فیصلہ کیا ہے ۔ وائی ایس شرمیلا کے ذریعہ کانگریس کے میدان میں آنے کے بعد رائلسیما کے علاقوں میں مسلم رائے دہندے کانگریس کی تائید کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ الغرض آندھراپردیش میں مسلم ووٹ بینک منقسم ہوتا نظر آرہا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے این ڈی اے میں شمولیت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو بھروسہ دلایا ہے کہ وہ سیکولر ایجنڈہ پر قائم رہیں گے۔ انہوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی جانب سے پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے متنازعہ قوانین کی تائید کا حوالہ دیا اور مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ وہ آندھراپردیش میں برسر اقتدار آنے کے بعد مودی حکومت کے کسی بھی مخالف مسلم فیصلہ کی تائید نہیں کریں گے۔ بی جے پی سے اتحاد کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت کا رجحان چندرا بابو نائیڈو کی طرف دکھائی دے رہا ہے ۔ جگن موہن ریڈی جو اقلیتوں کے ہمدرد تصور کئے جانے والے آنجہانی وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے فرزند کے طور پر خود کو مسلمانوں کے درمیان پیش کر رہے ہیں لیکن ان کے اطراف ایسے معتبر چہرے نہیں ہیں جنہیں دیکھ کر مسلمان وائی ایس آر کانگریس کی تائید کرسکیں۔ مسلم ووٹ کے لئے کانگریس کی دعویداری نے آندھراپردیش کی غیر سیاسی مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ الیکشن سے قبل ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے کوئی فیصلہ کریں۔ اطلاعات کے مطابق مسلمانوں میں اثر رکھنے والی مذہبی اور سماجی تنظیموں اور ان کے نمائندوں نے ہر ضلع میں مسلم نمائندوں کے اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تنظیموں کا ماننا ہے کہ اگر مسلم ووٹ تقسیم ہوتے ہیں تو سیاسی طور پر مسلمانوں کی اہمیت گھٹ جائے گا۔ متحدہ طور پر رائے دہی کے ذریعہ کسی ایک پارٹی کو منتخب کرنے کی صورت میں مسائل کی یکسوئی ممکن ہے۔ تینوں دعویداروں میں مسلم مذہبی جماعتوں کا زیادہ تر رجحان تلگو دیشم کی طرف دکھائی دے رہا ہے اور چندرا بابو نائیڈو کے جلسوں میں بڑی تعداد میں مسلمان شرکت کر رہے ہیں۔ 1