آگیا پھر میری بستی میں کھلونے والا

,

   

عام بجٹ … عام آدمی کیلئے کچھ نہیں
اترپردیش … سیکولر ووٹ … تقسیم کا خطرہ

رشیدالدین
’’مودی ہو تو ممکن ہے‘‘ مودی حکومت نے یوں تو کئی دلکش اور دلفریب نعروں کے ذریعہ عوام کو لبھانے کی کوشش کی اور بیشتر نعرے محض انتخابی جملے ثابت ہوئے لیکن مودی ہو تو ممکن ہو کا نعرہ ہر اعتبار سے درست ثابت ہوا ۔ ظاہر ہے کہ ملک میں معاشی انحطاط ، بیروزگاری ، مہنگائی اور غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ، یہ سب کچھ مودی سے ہی ممکن ہوا۔ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی کہ لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم کردیا جائے اور پھر یہ سب کچھ ہر سال دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کے وعدہ کی آڑ میں ہوا ۔ نوٹ بندی مودی سے ممکن ہوئی ، جی ایس ٹی کا سہرا مودی کے سر جاتا ہے ، حتیٰ کہ اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں یہ بھی مودی کے سبب ممکن ہوئیں۔ ملک کو معاشی ، سیاسی اور سماجی سطح پر انحطاط کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے صرف جملہ بازی سے دوسری میعاد کا اقتدار حاصل کرنا ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کا حصہ ہے۔ مودی نہ ہوتے تو ملک کا عام بجٹ خاص بجٹ نہ بن پاتا۔ ملک کے بجٹ کو عام بجٹ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بجٹ میں عام آدمی کی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن نریندر مودی نے 7 برسوں میں عام بجٹ سے عام آدمی کا تعلق ختم کردیا اور اسے خواص کا بجٹ بنادیا۔ وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے سال 2022-23 ء جو بجٹ پیش کیا ہے، اسے عام بجٹ کے بجائے خاص بجٹ کہا جاتا تو ٹھیک ہوتا، وہ اس لئے بجٹ سے عام آدمی کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا جن میں غریب اور متوسط طبقات شامل ہیں۔ تنخواہ یاب افراد اور لیبر طبقہ کے بجائے صنعت کاروں اور دولتمندوں کیلئے بجٹ تیار کیا گیا۔ جب کبھی عام بجٹ قریب آتا ، عام آدمی کی حکومت سے امیدیں وابستہ کرنے کی عادت ہوچکی ہے، مگر بھلائی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں اور نہ ہی بوجھ میں کمی کے اعلانات کئے گئے۔ وہ دن یاد آرہے ہیں جب نریندر مودی بین الاقوامی رہنماؤں سے ملاقات کیلئے ’’سوٹ بوٹ‘‘ میں دکھائی دیتے تھے۔ سوٹ بوٹ کی سرکار کا حقیقی بجٹ اس سال دکھائی دے رہا ہے۔ مودی حکومت نے عام بجٹ کی نوعیت ہی بدل ڈالی اور صرف عام بجٹ محض ایک جملہ بن کر رہ گیا۔ اس بات کو دہرانے میں کوئی جھجھک نہیں کہ مودی حکومت صنعتی گھرانوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکی ہے۔ مودی ہے تو ممکن ہے کہ نعرہ لگاکر علحدہ ریلویز بجٹ کی پیشکشی کی روایت کو ختم کردیا گیا اور اب بجٹ سے عوام کو بے تعلق کرتے ہوئے صنعتی گھرانوں اور دولتمند طبقہ کی بھلائی کے اعلانات کئے گئے ۔ مشہور تلگو شاعر ویمنا کا مشہور جملہ ہے کہ دیش کا مطلب مٹی نہیں بلکہ دیش کا مطلب انسان ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح عام آدمی کے بغیر عام بجٹ ادھورا ہی رہے گا لیکن مودی حکومت کو عوام کی فکر اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ جملہ بازی اور خوش کن نعرے عوام کا مقدر بن چکے ہیں جن کے ذریعہ ہر سال بہلایا جاتا ہے۔ اگر بجٹ کا یہی رجحان رہا تو وہ دن دور نہیں جب بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بجائے صرف ویب سائیٹ پر جاری کردیا جائے گا ۔ بجٹ میں جب عام آدمی کی حصہ داری اور مسائل کا احاطہ نہ ہو تو پھر ایسے بجٹ سے عوام کو کیا دلچسپی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی بجٹ پر عام آدمی کا رویہ سرد مہری کا رہا ۔ جس چیز سے تعلق ہی نہ رہا تو اس میں دلچسپی کون لے گا۔ بجٹ کے دن عام آدمی کو یہ جاننے کی فکر ہوتی ہے کہ سستا اور مہنگا کیا ہوا ہے۔ انکم ٹیکس کی حد میں مزید کیا رعایت دی گئی اور نئے ٹیکسوں کی صورت میں کس حد تک اضافی بوجھ عائد کیا گیا ۔ مودی حکومت صنعتی گھرانوں اور خانگی شعبہ کی غلام بن چکی ہے۔ اسی لئے قومی اثاثہ جات اور اداروں پر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کیا گیا۔ مودی نے خود کو پردھان سیوک ، چوکیدار اور فقیر کہہ کر مخاطب کیا ہے اور تینوں کردار بھی صنعتی گھرانوں کے مفادات کے محافظ ثابت ہوئے۔ پردھان سیوک دراصل صنعتی گھرانوں کے مفادات کے چوکیدار ہیں اور کام کی تکمیل کے بعد فقیر کی طرح جھولی اٹھاکر چل پڑیں گے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی کی ہمدردی کس سے ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی 40 فیصد دولت 100 بڑے صنعت کارو ںکے پاس ہے۔ عام آدمی کیلئے من کی بات لیکن صنعت کاروں کے لئے دھن کی بات ہے۔ سابق حکومتوں کے دور میں چاہے وہ کانگریس ہو یا اٹل بہاری واجپائی ہر دور میں بجٹ کی تیاری کا کام ماہرین معاشیات سے لیا گیا لیکن مودی نے معاشی امور کے بجائے ’’فار سیل‘‘ کے ماہرین کو صلاح کار بنالیا ہے۔ جب چوکیدار ہی نقب زنی پر اتر آئیں تو پھر بھروسہ کس پر کریں گے ۔ نرملا سیتا رامن خاتون ضرور ہیں لیکن گرہست خاتون کی طرح آٹا دال کے بھاؤ سے واقف نہیں، لہذا ان سے عام آدمی کیلئے راحت کی امید کرنا فضول ہے۔گزشتہ دو برسوں سے کورونا کی صورتحال نے لاکھوں خاندانوں کو بے سہارا اور کروڑہا افراد کو روزگار سے محروم کردیا، لہذا عام آدمی کو امید تھی کہ بجٹ میں معاشی ترقی کیلئے ٹیکس میں رعایتوں ، مہنگائی پر قابو پانے اور روزگار کی فراہمی کے اعلانات ہوں گے لیکن بجٹ نے ہر کسی کو مایوس کردیا ہے۔ عوام کو آخر کب تک جاگتی آنکھوں سے خواب دکھائے جائیں گے ؟ گزشتہ چند برسوں میں اوسط طبقہ اور غریب طبقہ سطح غربت سے نیچے پہنچ گیا جو پہلے سے سطح غربت کے نیچے تھے، ان کی حالت سے حکومت بھی لاعلم ہے۔ وقت کا تقاضہ یہی تھا کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے علاوہ روزگار اور صحت کے شعبہ کیلئے بجٹ میں توجہ دیتی لیکن یہاں تو غریبی ہٹاؤ کے نام سے غریبوں کو ہٹانے کی مہم دکھائی دے رہی ہے۔ 2014 ء الیکشن میں اچھے دن کا نعرہ لگایا گیا تھا اور سات برسوں میں اچھے دن ضرور آئے لیکن عام آدمی کیلئے نہیں بلکہ بی جے پی قربت رکھنے والے صنعتی گھرانوں کیلئے۔ حکومت اب ڈیجیٹل کرنسی کا نیا فتنہ متعارف کرنے کی تیاری میں ہے جس کے تحت ساری معاملہ داری ، فرضی کرنسی کے تحت ہوگی۔ ڈیجیٹل کرنسی کے بعد کیا ہندوستان میں چمڑے کے سکوں کا دور واپس آئے گا ؟
اترپردیش میں سیاسی مبصرین کو تبدیلی کے حق میں لہر کا امکان دکھائی دے رہا تھا لیکن پہلے مرحلہ کے چناؤ قریب آنے تک صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی۔ الیکشن کمیشن نے اگرچہ انتخابی ریالیوں کے معاملہ میں کسی قدر رعایت دی ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی آن لائین ریالیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ یو پی میں آئندہ حکومت کس کی ہوگی ، اس بارے میں گودی میڈیا روزانہ مباحث کے ذریعہ رائے دہندوں کے ذہنوں پر بی جے پی کو مسلط کرنے کی مہم پر ہے۔ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق اترپردیش میں بی جے پی کا پلڑا بھاری ہے اور موجودہ صورتحال کیلئے سیکولر جماعتیں ذمہ دار ہیں۔ عوام کو امید تھی کہ یوگی حکومت کے خاتمہ کیلئے سیکولر جماعتیں متحد ہوں گی لیکن ہر کسی کو اپنی انا عزیز ہے۔ لہذا بی جے پی کی واپسی روکنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف شدت سے محاذ آرائی کی جارہی ہے ۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے اترپردیش میں اکھلیش یادو کے حق میں مہم چلانے کا اشارہ دیا تھا لیکن ان کے تیور نرم پڑچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عجب نہیں کہ بی جے پی دوبارہ برسر اقتدار آجائے۔ نشستوں میں کمی کے ساتھ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کی پیش قیاسی کرتے ہوئے کے سی آر نے سیکولر طاقتوں کی آنکھیں کھول دی ہے۔ اترپردیش میں نظم و نسق ، الیکشن کمیشن اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہر کوئی بی جے پی کے ساتھ کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ اکھلیش یادو اقتدار میں واپسی کے لئے جان توڑ محنت کر رہے ہیں اور انہیں نشستوںکی صورت میں فائدہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اقتدار کا حصول موجودہ صورتحال میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ کانگریس پارٹی میں نئی جان پھونکنے کیلئے پرینکا گاندھی میدان میں ہیں لیکن پارٹی کے پاس کیڈر نہیں جو ہجوم کو ووث میں تبدیل کرسکے۔ سیکولر جماعتوں اور قائدین کے پاس کیڈر سے زیادہ آرزومندانہ عزائم دکھائی دے رہے ہیں لیکن الیکشن میں صرف عزائم سے کامیابی نہیں ملتی۔ اگر سماج وادی پارٹی اور کانگریس ما قبل الیکشن اتحاد کرتے تو اترپردیش کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔ مسلم ووٹ کی علحدہ شناخت اور اہمیت کے باوجود سیکولر جماعتوں میں پھوٹ کے نتیجہ میں مسلم ووٹوں کی اہمیت کم ہوچکی ہے۔ 20 فیصد مسلمان ہونے کے باوجود ان کی سیاسی طاقت بے وزن محض اس لئے ہے کیونکہ سیکولر جماعتوں نے انہیں ووٹ بینک کے طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔ سیاسی مبصرین نے مسلم رائے دہی میں اجتماعی نوعیت کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا ہے۔ اگر مسلم ووٹ تقسیم ہوں گے تو بی جے پی کو فائدہ یقینی ہوگا۔ محمد علی وفا نے کیا خوب کہا ہے ؎
پھول سے چہروں کو اشکوں سے بھگونے والا
آگیا پھر میری بستی میں کھلونے والا