ابن آدم ہوں خطا میرے خمیر میں ہے

   

محمد مصطفی علی سروری
جون کا مہینہ چل رہا ہے۔ ریاست تلنگانہ میں لاک ڈائون جاری تھا۔ ایک حافظ صاحب بھی دو بجے سے پہلے پہلے اپنے گھر واپسی کے لیے سفر کر رہے تھے۔ ابھی وہ ایک مسلم بستی سے گذر رہے تھے کہ اچانک ان کی ٹو وہیلر سے ایک پتھر آلگا۔ انہوں نے اپنی گاڑی کو روکا اور اس جانب دیکھا جہاں سے پتھر آیا تو وہاں پر کم عمر بچے کھڑے آپس میں ایک دوسرے پر پتھر پھینک رہے تھے۔ حافظ صاحب وہاں ٹھہر گئے۔ پہلے تو وہ غصہ میں تھے پھر انہوں نے اپنے جذبات کو قابو کرنے کے بعد طئے کیا کہ وہ ان بچوں کو اس بہانے کچھ نصیحت کریں گے۔ وقت کم تھا۔ خیر سے انہوں نے بچوں کو اپنے قریب بلایا لیکن کوئی بچہ آنے تیار نہیں ہوا۔ بالآخر وہ خود بچوں کے قریب گئے اور پوچھا کہ ارے یہ کیا ہے بیٹا ایسے پتھر مارتے کیا کسی کو۔ لیکن کوئی بھی ان سے بات کرنے تیار نہیں تھا۔ خیر سے آگے بڑھ کر انہوں نے ایک لڑکے کو ہاتھ پکڑ کر قریب کرلیا جس پر انہیں یقین تھا کہ پتھر اسی نے مارا ہے۔ لڑکا ڈر کے مارے رونے لگا اور اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ خیر سے تھوڑی دیر میں حافظ صاحب نے اس چھوٹے بچے کو یقین دلایا کہ وہ اس کو مارنے والے نہیں ہیں۔ اب انہوں نے بچے سے نام پوچھا تو وہ ایک مسلمان لڑکا تھا جس کی عمر تقریباً 8 برس تھی۔ حافظ صاحب نے پوچھا کہ بتائو پتھر کس نے مارا ہے؟ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ کوئی سزا دینے والے نہیں تو لڑکے نے اپنی غلطی تسلیم کرلی کہ ہاں وہ دراصل کھیل رہا تھا اور اس کا مقصد کسی کو مارنا نہیں تھا۔ دوسرے لڑکے تو وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔

اس پکڑے جانے والے لڑکے سے حافظ صاحب کی بات چیت چل رہی تھی۔ محلے کے کچھ اور لوگ بھی جمع ہوگئے اور تماشہ دیکھنے لگے۔ حافظ صاحب نے اس لڑکے کو سمجھایا کہ جب اپنی غلطی سے کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کو Sorry بولنا چاہیے اور معافی مانگنی چاہیے۔ اس کے بعد اب حافظ صاحب کا دوسرا سوال تھا کہ بیٹے تم اوّل کلمہ سنائو تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ اس ساری گفتگو کے دوران وہ لڑکا اپنا ہاتھ مسلسل حافظ صاحب کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
لڑکا رونے لگا اور بتایا کہ اس کو اول کلمہ یاد نہیں۔ اس واقعہ کو سنانے کے بعد خود حافظ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کس قدر سنگین غفلت کا مظاہرہ ہے کہ ہم لاک ڈائون میں آمدنی سے محرومی کا رونا رو رہے ہیں۔ مال اور جان کے نقصانات پر آنسو بہا رہے ہیں اور غم کا اظہار کر رہے ہیں اور ہمارے محلوں میں سلم علاقوں میں دین کے حوالے سے غفلت کا یہ عالم ہے کہ بچے چھ چھ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی اول کلمہ کیا ہے نہیں جانتے۔ اس سے بڑی غفلت اور بے دینی کی بات کیا ہوسکتی ہے۔

قارئین مسلمانوں میں دین اسلام سے واقفیت کی جتنی ضرورت آج ہے شاید پہلے ایسا کبھی نہیں تھا۔ لیکن عمومی طور پر مسلم سماج میں دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کے حوالے سے جتنی اور جس طرح کی فکر کی جانی چاہیے اس پر فوری توجہ ناگزیر ہے۔ لاک ڈائون سے اسکولس بند ہوگئے۔ اسکول کی تعلیم آن لائن ہوگئی۔ لاک ڈائون کے سبب اقامتی دینی مدارس بند ہوگئے اور وہ طلباء جو گھر پر یا جز وقتی دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کے لیے بھی بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ اسکول اور کالج کی تعلیم کی طرح دینی تعلیم کی فکر نہ کی جائے اور اگر اس موضوع پر فوری توجہ نہیں دی جائے تو صورت حال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔
ذرا غور کیجئے گا ۔ ہماری توجہ کہاں مرکوز ہے۔ پرانے شہر حیدرآباد سے ایک خبر آتی ہے کہ ایک ہندو لڑکا مسلمان لڑکی کو لے کر جارہا تھا تو مقامی مسلمانوں نے ہندو لڑکے کی اس حرکت پر اعتراض کیا۔ لڑکا بھاگ کر پولیس اسٹیشن جاتا ہے جہاں پولیس اس کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان مسلم نوجوانوں پر کیس بک کردیتی ہے جو مسلم لڑکی کے ہندو نوجوان کے ساتھ جانے پر اعتراض کر رہے تھے کیونکہ قانون کی نظر میں بالغ شہری اپنی مرضی سے کسی کے بھی ساتھ جاسکتا ہے اور دوسرا کوئی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔پرانے شہر حیدرآباد کے اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد بہت سارے حضرات مختلف طرح کا نقطۂ نظر پیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس طرح کے واقعات کو خطرے کا الارم مان کر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم مسلمان نوجوان لڑے اور لڑکیوں کو اس بات کی تعلیم دیں کہ وہ اگر شادی کرنا چاہتے ہیں تو صرف مسلمانوں کے ساتھ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ غیر مسلم حضرات سے ان کا نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔
ابھی پرانے شہر حیدرآباد کا یہ واقعہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا ایک اور خبر نے مسلم نوجوانوں کے جذبہ ایمانی کو بیدار کردیا اور وہ لوگ نیکی کے جذبے کے تحت ایک ایسی خبر شیئر کرنے لگے ہیں جس میں رجسٹرار میاریج آفس کی نوٹس شامل ہے۔ نوٹس میں درج تفصیلات کے مطابق ایک مسلمان لڑکی، ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کے لیے آمادہ ہے۔ اس نوٹس کو شیئر کرنے کے ساتھ مشورہ دیا جارہا ہے کہ غیور مسلمان اس لڑکی سے ملیں۔ اس کو ہندو لڑکے کے ساتھ شادی سے منع کریں اور حمیت دینی کا مظاہرہ کریں۔
قارئین اس طرح کی اطلاعات، اس طرح کے واقعات دراصل اس بیماری کا پتہ دے رہے ہیں جو مسلم سماج میں پھیلتی جارہی ہے۔ جسم پر نمودار ہونے والے پھوڑ ے پھنسی کو آپریشن کے ذریعہ صاف کردینا اس بات کی گیارنٹی نہیں کہ آئندہ سے اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوگا بلکہ اصل بیماری کی جڑ تک پہنچنا ضروری ہے۔

اگر قانون کی روشنی میں دستور ہند کے دائرے میں بات کریں تو مسلمان لڑکی اگر اپنی مرضی سے کسی ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرتی ہے یا کرنا چاہ رہی ہے تو اس کو قانونی طور پر حق حاصل ہے۔ بالفرض غیور مسلمان کسی طرح کی بھی کوئی حرکت کریں یا کونسلنگ بھی کریں اور لڑکی ان غیور مسلمانوں کے خلاف شکایت کردے تو یہ غیور مسلمان بھی پولیس اور قانونی پیچیدگیوں میں پھنس سکتے ہیں۔ ایسے میں کیا کریں، کیا نہ کریں یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے۔
مسلمان کسی طرح بھی غیر قانونی کام نہ کریں اور نہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حماقت کریں۔ سب سے اہم بات کہ مسلمانوں کو یہ بات سمجھائیں اگر انہیں مسلم لڑکی کا غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کا عمل گوارہ نہیں تو یقینا وہ اس عمل کو اپنے دل میں برا سمجھیں لیکن اپنے اطراف، اپنے حلقہ اثر میں کام شروع کریں کہ ان کے خاندان میں ان کے محلے میں کوئی بھی مسلمان دین اسلام کی تعلیمات سے غافل نہیں رہے گا۔ ڈاکٹر، انجینئر بننے کی خواہش کے ساتھ ساتھ ایک مسلم لڑکا یا لڑکی پہلے اچھا مسلمان بنے گا پھر دنیا کی ہر تعلیم حاصل کرے گا۔

قارئین ذرا غور کریں ہمارے اطراف و اکناف میں، ہمارے اڑوس پڑوس مسلمانوں کی خاص طور پر مسلم والدین کی سب سے پہلی فکر اپنی لڑکیوں کی شادی کی ہوتی ہے۔
لڑکی کی شادیوں کو ہم نے اس قدر سنگین بنادیا ہے کہ ادھر لڑکی پیدا بھی نہیں ہوتی ادھر والدین کو ان کی فکریں گھیر لیتی ہیں۔ یقینا اولاد اللہ رب العزت کی ایک بہترین نعمت ہے۔ لیکن ان کے نکاح کی فکر کرنا سنت ہے۔ اس سے پہلے ان کی تعلیم و تربیت کے اسباب اختیار کرنا فرض ہے۔
لاک ڈائون سے پہلے کی بات ہے سید صاحب اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے۔ ابھی انہوں نے اپنے محلے کی گلی میں گاڑی موڑی بھی نہیں تھی کہ سامنے سے ہیلمٹ پوش دو نوجوان تیز رفتار گاڑی کے ساتھ اسی گلی میں داخل ہوئے اور یوں سید صاحب شدید ٹکر کے اثر سے نیچے گر گئے۔ اللہ کا کرم یہ ہوا کہ انہیں کوئی شدید چوٹ نہیں آئی لیکن انہوں نے اس نوجوان کو ہیلمٹ اتارنے کے بعد پہچان لیا اور سیدھے اس کے گھر پہنچ گئے۔ اس کے والد سے ملاقات کی اور پھر شکایت کی کہ آپ کے صاحبزادے نے آج اس طرح سے ٹکر مار کر گرادیا وغیرہ اور وہ تو بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی ایسے تیز چلا رہا تھا جیسے اس نے کچھ غلط کام کیا ہو۔ بس کیا تھا نوجوان کے والد نے جیسے ہی یہ سنا سید صاحب کو ہی برا بولنے لگے۔ میرا لڑکا ایم بی اے کر رہا ہے۔ آپ لوگ میرے بچے سے حسد کرتے ہیں۔ آپ کے بچے تو کچھ پڑھے نہیں باہر جاکر کیا کر رہے ہیں کسی کو نہیں معلوم وغیرہ وغیرہ۔ سید صاحب سے اور کچھ سنا تو نہیں گیا وہ واپس اپنے گھر آگئے۔

پھر ایک رات پولیس کی جیب سید صاحب کے گلی میں آکر رکی تو ان کے پڑوسی نوجوان کو اپنے ساتھ پکڑ کر لے گئی۔ دو دن بعد اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ پولیس نے موبائل فون چھیننے والے نوجوانوں کی 3 رکنی ٹولی کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتار نوجوان کے پاس سے مختلف برانڈز کے 17 موبائل فونس اور بغیر نمبر پلیٹ کی دو ٹو وہیلرس بھی برآمد کرلی گئی۔
خبر کی اشاعت کے بعد سید صاحب کے پڑوس میں رہنے والے افراد خاندان نے گھر ہی خالی کرلیا اور سید صاحب کے مطابق وہ پھر انہیں نظر بھی نہیں آئے۔قارئین یقینا دنیا کا ہر فرد ہمارا ہمدرد نہیں ہوسکتا ہے لیکن اولاد کی محبت میں اندھے بن کر اگر ہم ان کی تربیت ان کی نگرانی اور تعلیم کو نظر انداز کردیں تو برے انجام سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
لڑکا ہو یا لڑکی ان کی شادی سے پہلے ان کی تربیت کی فکر کیجئے گا۔ تربیت کے بغیر شادی ہوگی تو وہ بھی اپنی اولاد کے حوالے سے غافل ہی رہیں گے اور غافلوں کی فوج جن کے ہاں ایمان کا اصل مفہوم ہی واضح نہ ہو وہ تو کسی کام کی نہیں ۔ اللہ رب العزت ہم سب کی مشکلات کو دور کرے اور اولاد کی تربیت کے کام کو آسان کرے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com