ابن بطوطہ کے دیس میں ایک ناقابل فراموش اور یادگار سفر

   

(قسط سوم)

ابن حاجی گل

اغادیر سے ہفتے میں دو دن مراکش کی سیروتفریح کے لئے ہوٹلوں سے سیاحوں کو کوچیں لے جاتی ہیں۔جمعرات اور غالباً پیر کو۔ آپ پہلے سے ٹکٹ خرید کر اپنی جگہ محفوظ کراسکتے ہیں، لیکن ہم نے ہوٹل ہی میں بارگین کرکے سستی قیمت پر ٹکٹ خریدا ، جس سے ہمیں تقریبا ساڑھے چار سو درہم کی بچت ہوئی۔ کوچ میں ہمارے ہمراہ ایک ٹورسٹ گائیڈ بھی تھا، جس نے سفر کے دوران شستہ انگریزی میں سیاحوں کی رہنمائی کی، اور مراکش کی تاریخ اور ثقافت کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیا۔ ایک دلچسپی کی بات یہ بتائی کہ مراکش میں خواتین کو اتنی آزادی ہے کہ مرد ان کی اجازت کے بغیردوسری شادی نہیں کرسکتا، اس مقصد کے لئے اسے بیوی سے اجازت لینی پڑے گی، اور اگر بیوی اجازت دے بھی دے تو اسے جج کے سامنے یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ اس نے یہ اجازت اپنے خاوند کو بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے دی ہے، اور یہ کہ مراکشی خواتین کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ جیسا بھی لباس پہننا چاہیں، پہن سکتی ہیں۔ دوسری دلچسپی کی بات یہ بتائی کہ غیر مسلم مسجد میں نہیں جاسکتے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ مراکش شہر میں کافی تعداد میں فرانسیسی باشندے آباد ہیں، اور یہ کہ وہاں بیرونی ممالک کے شہریوں کو جائیداد خریدنے کی اجازت ہے۔سفر کے دوران راستے میں کوچ نے ایک جگہ اسٹاپ کیا اور ہمیں ایک چرواہے کے ہمراہ بکریاں دیکھنے کا موقع ملا، جو کمزور تھیں، لیکن ہمیںیہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ کچھ بکریاں درخت پر کھڑی تھیں۔بکریاں خاموش رہیں اور خوفزدگی یا گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔یوں محسوس ہؤا جیسے انہیں اس کی ٹریننگ دی گئی تھی ۔ چنانچہ سیاحوں کے لئے،خاص طور پر ایسے سیاحوں کے لئے جنہیں بہت کم مال مویشی دیکھنے کا موقع ملتا ہے، دلچسپی کی بات تھی، اور انہوں نے ان کے ساتھ تصویریں اور ویڈیوز بنائیں۔
راستے میں تھوڑے سے وقفے اور خوردونوش وغیرہ کے لئے ایک سروس اسٹیشن پر کوچ کو روکا گیا، جس کا ماحول انتہائی صاف ستھرا تھا، اور اس کا معیار برطانوی موٹرویز پر ایسی سہولتوں سے کم نہیں تھا، اگرچہ قیمتیں شہر کے مقابلے میں قدرے زیادہ تھیں۔ اغادیر سے مراکش تک کے سفر کے دوران آپ کو چھوٹے چھوٹے گاؤں اور پہاڑ نظر آئیں گے ، اور کثیر تعداد میںارکان کے درخت بھی۔
آپ جیسے جیسے مراکش شہر میں داخل ہونا شروع ہوتے ہیں، آپ کو اغادیر اور مراکش کے طرزتعمیر میں فرق نظرآئے گا ۔ اغادیر کے مقابلے میں یہاں فرانسیسی ثقافت کے اثرات نمایاں طور نظر آتے ہیں، ہوٹلوں، تجارتی مراکز وغیرہ کے نام فرانسیسی زبان میںبھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔یہ بات بھی عجیب نہیں لگی کہ دیگر سابقہ استعمار کے زیر تسلط ممالک کی طرح یہاں بھی پرائیوٹ اسکولوں کاجال پھیلا ہوا ہے۔ اور جیسا کہ ٹورسٹ گائیڈ نے بتایااور جو باعث تعجب نہیں کہ پرائیویٹ اسکولوں میں متمول خاندانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ہمار ی کوچ مراکش کی تاریخی مسجد یا جامع الکتبیہ کے پاس رکی۔یہ واقعی ہی مراکش کی قدیم طرز تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہے ۔ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی مسجد کے مینارہ کی اونچائی ۷۰ میٹر ہے، اور جو دور سے دکھائی دیتا ہے۔ مسجد کے باہر خوبصورت باغیچہ ہے ۔ یہاں غیر مسلموں کو اندر جانے کی اجازت نہیں، مگر اس کے بیرونی صحن میں گھوم پھر سکتے ہیں۔ مراکش میں بھی ہمیں ارکان کے ایک فارمیسی میں لے جایا گیا اور نہایت تفصیل سے اس نادر اور انمول پودے کی مختلف انواع و اقسام کی مصنوعات سے آگاہ کیا گیا۔ سیاحوں کومراکش کے قدیم حصے میں تنگ گلیوں میں واقع ایک صوفی بزرگ سیدی ابو محمد عبداللہ الغزوانی ؒ ( تاریخ وفات ۹۳۵ھ بمطابق ۱۵۲۸ عیسوی)کے مزار پربھی لے جایا گیا، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ مراکش کے بعض صوفی بزرگوں نے اپنی خانقاہوں سے نکل کر بیرونی استعمار کے خلاف قومی جدوجہد میں قائدانہ اورانتہائی فعال کردار ادا کیا۔
مراکش شہرمیں یوں تو دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ، لیکن ہمارے پاس وقت کم تھا۔ 6 سے 7 گھنٹے آنے جانے،ایک گھنٹہ پرانے بازار، اور گلیوں میں گھومنے، اور ایک گھنٹہ لنچ میں گذر گیا۔ ہمیں تقریبا دو گھنٹے فری ٹائم دیا گیا تھا، جس کے دوران مراکش کے پرانے تجارتی چوک ،ملحقہ مارکیٹوں، اور چند ایک تاریخی مقامات دیکھنے میں صرف ہوئے۔ اس چوک کو آپ عوامی چوک کہہ سکتے ہیں ، جہاںسیاحوں کی تفریح طبع کے لئے سپیرے ، ہاتھوں اور ریڑھیوں میں سامنا بیچنے والے ، گھوڑوں پر سواری کروانے والے اور جوتوں کی مرمت کرنے والے بھی ملیں گے ۔میرے خیال میں مراکش کے قدیم اور جدید علاقوں اورمشہور سیاحتی مراکز کے لئے آپ کو کم ازکم دودن اور دوراتیں چاہئیں تاکہ آپ اطمینان سے گھوم پھر سکیں ، اور مراکش کی تاریخ اور ثقافت کو سمجھ سکیں۔
آج جمعہ ہے، جمعے کی نماز بھی ادا کرنی ہے،رات کو مراکش سے واپسی میں دیر بھی ہوگئی تھی۔ تھوڑی سی تھکاوٹ بھی محسوس ہورہی تھی لیکن سیر کے لئے کہاں جائیں۔چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ وادی جنت وادی الجنۃ Paradise Valley کی سیر کریں۔
شایدہمارے پورے سفرمیں سب سے زیادہ دلچسپ ،روح پرور اورپرلطف دن وہ تھا جب ہم Paradise Valley کی سیر کے لئے گئے جو اغادیر کے شمال میں تقریبا ۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، تقریبا آدھے گھنٹے میں ہم وہاںپہنچ گئے تھے۔ Paradise Valley مراکش کے بڑے اٹلسی پہاڑوں کے سلسلے میںواقع تامراغات نہر کا ایک نہایت ہی خوبصور ت اور دلکش حصہ ہے، اتنا خوبصورت اور دلکش کہ اگر آپ اغادیر میں کہیں بھی نہ جائیں مگر اس مقام کی سیر کرلیں تو آپ کے سفر کا مقصد حاصل ہوجائیگا اور اگر آپ یہاں نہ جاسکے تو آپ کو اپنے سفر اور سیاحت میں کمی اور تشنگی محسوس ہوگی۔ پہاڑوں کے درمیان واقع یہ وادی جس میں کہیں تنگ کہیں کشادہ ندیاں، پگڈنڈیاں،کھجور ، کہیں ارگان، اور کہیں زیتون کے درخت، اور سڑک کی دونوں جانب بلند اور خوبصورت پہاڑوں کا سلسلہ سیاحوں کے لئے اس کرہ ارضی میں جنت کا منظر پیش کرتا ہے۔ہر طرف ہریالی،بلند چٹانیں، کہیں کہیں آپ کو سیاحوں کی مہمان نوازی کے لئے چھوٹے چھوٹے کیفے بھی نظر آئیں گے۔ آپ وہاں دوستوں اور فیملی کے ساتھ پکنک مناسکتے ہیں۔ کہیں کہیں آپ کو چھوٹے چھوٹے گھر نظر آئیں گے۔ جھیلیں بھی ہیں جہاں سیاح ان میں غوطہ خوری کرتے ہیں ۔
ہماری ٹرپ کو خوشگوار موسم اور رات کی بارش نے مزید پرلطف بنادیا تھا۔کار یا ٹیکسی سے باہر نکلنے کے بعد آپ ایک جگہ بیٹھ کر خوبصورت منظر کا نظارہ بھی کرسکتے ہیں، یا چہل قدمی بھی کرسکتے ہیں۔اس میں نشیب و فرازہیں، لہذا احتیاطاً ایسے علاقوں کی مناسبت سے بوٹ یاکوئی بھی مناسب جوتے پہنیں تاکہ آپ کو چلنے میں آسانی ہو۔ فطری خوبصورتی اور ماحول کی خاموشی، شہر اور بازاروں کے شوروغل سے دوریقینا یہ صحت افزا مقام سیرو سیاحت کے قابل ہے۔