قا نونیت کے بغیر جمہوری ممکن نہیں ہے۔ہمیں اس بات کی توقع رکھنا چاہئے کہ اگر مودی دوبارہ وزیراعظم بنتے ہیں تو یہ بات یا د رکھیں گے۔پچھلے ہفتہ ہم بہرور گئے تھے۔ دوسال قبل یہاں پر پیہلو خان کو زدکوب کرکے قتل کردیاگیاتھا۔
ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ جس شخص نے انہیں لینچ کیا ہے وہ کس حال میں ہے۔پہلے تو ہم بازار میں رکے۔ جب میں نے ان کا نام لیاتو دوکاندار مسکرایا اور کہنے لگا’’ اس سڑک سے کچھ فاصلے پر و ہ واقعہ پیش آیاتھا۔ اس کے ساتھ جو کیاگیا وہ حق بجانب تھا۔وہ میویشیوں کی تسکری کرنے والا تھا۔سابق میں اس کا بیٹا بھی میویشیوں کی تسکری میں گرفتار ہوا تھا۔
اگروہ اسمگلر نہیں تھا تو اس کی گاڑی میں دس گائے کیوں تھے؟‘‘۔کیونکہ الیکشن کا وقت ہے تو میں نے ہمیشہ کی طرح استفسارکیا کہ کون جیتے گااور اس نے بناء کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا’’ یہاں پر مودی کی لہر ہے‘‘۔میں نے پوچھا کیا یہ پاکستان کے خلاف فضائیہ حملے کی وجہہ سے ہے تو اس نے کہا ہاں ۔میرا گلہ توقف پولیس اسٹیشن تھا ۔ یہ ایک قدیم عمارت تھی ‘پیلے رنگ کا بنگلہ جس میں کھڑکیاں نہیں تھیں۔
ایک بند دوسرے تنگ راستے سے گذر کر میں ان افیسروں سے ملاقات کی جو پیہلو خان اور اس کے قاتلوں کے متعلق بات کرنا بھی پسند نہیں کررہے تھے۔ بالآخر ایک افیسر نے سرخ کپڑے میں لپٹی ہوئی ایک فائیل میں ان دولوگوں کے نام نکال کر دئے جس پر قتل کا الزام عائد ہے۔ان میں سے دو ہی بہرور کے تھے جن تک ہماری رسائی ہوسکی۔
نان سوکھ محلے کا ساکن ویپن یادو والد سنجے یادو۔تنگ او رآلودہ گلیوں سے گذار کر جانے کے بعد کوئی ایسا نہیں ملا جو ویپن یادوکو جانتاہو۔ انہو ں نے مجھے کورٹ ہاوز جانے کامشورہ دیا۔ لہذا میں دوسرے کمروں کے جنگل میں جانے پر مجبور ہوگیا۔
پھر ایک مرتبہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے ‘ ایک افیسر سے دوسرے افیسر تک جاناپڑا‘ ایک جانکاری بھی قاتلوں کے متعلق مجھے نہیں ملی۔ جب میں پیہلوخان کی بیوہ اور ان کے بچوں سے ہریانہ پہنچ کر ملاقات کی تب مجھے اندازہ ہواکہ کوئی بھی کیو ں قاتلوں کے متعلق بات نہیں کرنا چاہارہا ہے۔
عارف ایک خوفزدہ نوجوان جس اس کے والد پر ہوئے حملے کے وقت ساتھ میں تھا۔دھیمی آواز میں اس نے کہاکہ’’ ہم بہرور نہیں جارہے ہیں۔ آخری مرتبہ جب ہم کیس کی سنوائی میں بہرور گئے تھے اس وقت نیمرانہ میں ہمارے کار پر بندوق سے فائیر نگ کی گئی تھی۔ انہو ں نے ہمیں انتباہ دیا کہ ہم آگے نہ جائیں ۔
لہدا ہمارا وکیل الور کے باہر مقدمہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔اسی درد بھر ی آوار میں انہوں نے بتایا کہ یکم اپریل2017کے روز جب بہرور میں گاؤ رکشکوں نے انہیں روک لیاتھا اس وقت کیاہوا ۔
عارف نے کہاکہ ’’ہمارے گاڑی میں دوگائے اوردوبچھڑے تھے‘ اور پیپرس بھی تھے جس سے یہ دیکھا سکیں کہ ہم یہ میویشے جئے پور سے خرید کر لائے ہیں۔ ان لوگوں نے کاغذات پھاڑ دئے او رمیرے والد کی داڑھی دیکھ کر کہنے لگے تم لوگ مسلمانوں ہوں۔
پھر ان لوگوں نے ہمیں ہاکی اسٹک اور بیلٹوں سے پیٹنا شرو ع کردیا۔ ان لوگوں نے کہاکہ وہ بجرنگ دل کے ہیں۔ بڑی بے رحمی کے ساتھ ہماری پیٹائی شروع کردی اب بھی مجھے درد ہے۔ میری انکھوں میں خون اگیاتھا جس کی وجہہ سے مجھے دیکھائی نہیں دے رہا تھا‘‘۔
ادھی گھنٹہ بعد پولیس ائے اورانہیں اسپتال لے گئی ۔ پھر اس کے بعد وہ گائے چوری کرلی گئی او رقاتلوں نے ان کے پاس سے ستر ہزار روپئے بھی چھین لئے۔ پیہلو خان کی بیوہ کو تین روز تک پتہ نہیں چلا کہ ان کے شوہر او ربچوں کے ساتھ کیاہوا ہے ۔
انہو ں نے بتایا کہ ’’ کسی نے گاؤں انہیں انٹرنٹ پر وائیرل ہونے والا ویڈیو دیکھا یا‘‘۔ ان کی آواز ٹوٹ رہی تھی ’’ان لوگوں نے مجھے دیا ‘ تب مجھے پتہ چلا کہ واقعہ کیاہوا ہے‘‘۔ مذکورہ خاندان نے ڈائیری فارم کا کاروبار ختم کردیاہے اور زیب النساء کے بچے ٹرک ڈرائیور کے ہلپر کے طور پر کام کررہے ہیں۔
نہ تو ان کے پاس زمین ہے اور نہ انہیں حکومت راجستھان او رنہ ہی حکومت ہریانہ کے معاوضہ ادا کیا ہے۔ان کے گھر میں ایک نیا چمکتا ہوا ٹریکٹر کھڑا تھا۔
کسی نے دوبئی سے انہیں یہ امداد کی ہے ۔سب سے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہونے کے باوجود بھی پیہلو خان کے گھر والے انصاف سے محروم ہیں۔
انہیں پانچ لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرنے کا وعدہ اب ایسا لگتا ہے فراموش کردیاگیاہے۔ ہر کوئی مودی لہر کی بات کررہا ہے۔قا نونیت کے بغیر جمہوری ممکن نہیں ہے۔ہمیں اس بات کی توقع رکھنا چاہئے کہ اگر مودی دوبارہ وزیراعظم بنتے ہیں تو یہ بات یا د رکھیں گے