اب سبھی کشمیری بندوق تھام لیں تو …؟

   

پی چدمبرم
میں نے جموں و کشمیر کے بارے میں اکثر لکھا ہے لیکن آج صورتحال کچھ مختلف ہے۔ جموں و کشمیر اب وہی جموں و کشمیر نہیں رہا۔ یہ اب ریاست بھی نہیں ہے۔ اسے جدا جدا کردیا گیا ہے۔ اب دو مرکزی زیرانتظام علاقے لداخ اور جموں و کشمیر ہیں۔ ہندوستان کے دستور کے تحت کبھی کسی ریاست کو مرکزی علاقہ تک نہیں گھٹایا گیا تھا۔ 5 اور 6 اگست 2019ء کو مرکزی حکومت تین معاملوں میں پارلیمنٹ کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب رہی:
.1 آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور متبادل : آرٹیکل 370 کو اسی آرٹیکل کے فقرہ (1) کو لاگو کرتے ہوئے بدل دیا گیا اور اسی آرٹیکل کے فقرہ (3) میں ترمیم لائی گئی۔ آیا یہ کوئی فاش قانونی غلطی ہوئی یا عیارانہ قانونی حکمت عملی‘ صرف وقت اور عدالتیں ہی کہہ سکتے ہیں۔ ہم جیسے فانی لوگ تو اسے صرف ایک دستوری چالاکی قرار دے سکتے ہیں جو معروف مصور صوفی دوسی کی فنکاری جیسی ہے۔ محض ایک فقرہ کے ساتھ نیا آرٹیکل 370 کوئی خصوصی دفعہ ہی نہیں، یہ تو بس سارے دستور کو جموں و کشمیر کیلئے لاگو کرتا ہے۔
.2 ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے اور دو مرکزی علاقے تشکیل دینے کی تجویز پر پارلیمنٹ کی رائے حاصل کرنا: اظہار خیال کا حق دستورساز اسمبلی کو سونپا گیا تھا جس نے جموں و کشمیر دستور کی تدوین کی۔ کرشماتی طور پر، ایک ہی جھٹکے میں، دستورساز اسمبلی جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور پھر پارلیمنٹ بن گئی! اس لئے، پارلیمنٹ کی آراء حاصل کرنے کے بعد پارلیمنٹ کی قرارداد منظور کررہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں غیرمادی اُصول ہے جو فانی افراد کے فہم سے بالاتر ہے۔
.3 ریاست جموں و کشمیر کی تنظیم جدید اور دو مرکزی علاقوں کی تشکیل : جموں و کشمیر (تنظیم جدید) بل 2019ء نے ماضی کی نظیروں کی تعمیل کا دھوکہ دیا کہ ایک میں سے دو ریاستیں تشکیل دی گئیں، سوائے اس کے کہ یہ بل نے ایک ریاست میں سے دو مرکزی علاقے بنائے ہیں۔ فطری بات ہے کہ سرکاری بنچوں کو کچھ فرق پڑتا ظاہر نہیں ہوا، لیکن حیرت اس تبدیلی پر ہوئی کہ علاقائی پارٹیاں جو ریاستوں میں برسراقتدار ہیں، جیسے آل انڈیا انا ڈی ایم کے، بی جے ڈی، جے ڈی (یو)، ٹی آر ایس، عام آدمی پارٹی اور وائی ایس آر سی پی… انھیں کچھ بیجا معلوم نہیں ہوا اور اس بل کے حق میں ووٹ دیئے۔ ٹی ایم سی نے واک آؤٹ کیا۔
خطرناک رجحان
اگر ماضی کی نظیر پر عمل کیا جائے تو بس کچھ وقت میں دارجیلنگ کو مغربی بنگال سے علحدہ کرتے ہوئے مرکزی زیرانتظام علاقہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ معمول کا عمل یہ رہے گا کہ ریاستی اسمبلی سے ’’اس کی آراء کے اظہار‘‘ کیلئے کہا جائے گا یا صدر راج نافذ کریں اور اسمبلی کو تحلیل کردیا جائے۔ دیگر نشانے جو ذہن میں آرہے ہیں، وہ ضلع بستر، اڈیشہ کے KBK اضلاع ، منی پور کے پہاڑی اضلاع اور آسام میں بوڈولینڈ ہیں۔ زیادہ اہم مسائل قانونی اعتراضات نہیں بلکہ سیاسی اعتراضات ہیں۔ اس عمل سے قبل یا اس کے دوران، جو 6 اگست کا نتیجہ بنا، حکومت نے 22 نومبر 2018ء کو جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے سے قبل اسمبلی سے مشورہ نہیں کیا۔ حکومت نے اصل دھارے کی سیاسی پارٹیوں یا اُن کے قائدین سے مشاورت بھی نہیں کی، جن میں چار سابق چیف منسٹرس ہیں۔ حکومت نے حریت کانفرنس سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ مودی حکومت نے انھیں تسلیم کرنے یا ان سے بات چیت کرنے سے انکار کیا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حکومت نے عوام کی رائے حتیٰ کہ مصالحت کاروں کے ذریعے بھی طلب نہیں کی۔حکومت نے اپنے اقدام کی مدافعت کرتے ہوئے اسے بی جے پی منشور کے وعدہ کی تکمیل سے تعبیر کیا۔ یہ صرف جزوی طور پر سچ ہے۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ بلاشبہ بی جے پی کا وعدہ رہا، لیکن بے شک، بی جے پی نے جموں و کشمیر کو تقسیم کرتے ہوئے دو مرکزی علاقے تشکیل دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ اگر لداخ کو علحدہ کرتے ہوئے مرکزی علاقہ بنانا بھی تھا تو بقیہ ریاست جموں و کشمیر کو بدستور اسٹیٹ (ریاست) برقرار رکھا جاسکتا تھا۔ خصوصیت سے اس سوال پر کہ کیوں ایسا نہیں کیا گیا، کوئی جواب نہیں ملا۔
عوام نظرانداز، مگر ضرور ہوں گے کامیاب
حکومت کے غیرمعمولی اقدامات کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ وادیٔ کشمیر کے زائد از 7 ملین (70 لاکھ) عوام کریں گے، نہ کہ وہ ہزارہا دستے جو حکومت نے تعینات کردیئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وادی کے لوگ حکومت کے اقدامات پر کس طرح ردعمل ظاہر کریں گے؟
n آرٹیکل 370 کی تنسیخ ایک دستوری ضمانت کی خلاف ورزی قرار پائے گی، اس کے ساتھ ساتھ وہ وعدہ بھی توڑا گیا جو جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل (معاونین: این گوپال سوامی اینگر اور وی پی مینن)، بابا صاحب امبیڈکر اور دیگر دستورسازوں نے کیا تھا۔
n عوام ان اقدامات کو واجپائی کے مشہور بیان سے قطع تعلق قرار دیں گے کہ مسئلہ کشمیر کا حل انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت میں ڈھونڈا جائے گا۔
n لداخ کی بطور مرکزی زیرانتظام علاقہ تشکیل (لیہہ نے اس کی حمایت کی، کارگل نے اس کی مخالفت کی) کو جموں و کشمیر کے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا۔
n مرکزی علاقہ جموں و کشمیر کی تشکیل اس وادی کے عوام کی ہتک کرنے اور اُن کے سیاسی، معاشی اور قانون سازی حقوق کو ماند کردینے کی کوشش قرار دی جائے گی۔
میرے لئے جو بات واضح ہے وہ یہ کہ بی جے پی کی نظروں میں وادی کشمیر رئیل اسٹیٹ کا محض ٹکڑا اور 70 لاکھ شہری نہیں ہے۔ بی جے پی کی نظروں میں کشمیریوں کی تاریخ، زبان، ثقافت، جدوجہد اور ان کے مذہب کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ایسے ہزاروں کشمیری ہیں جن کو تشدد اور علحدگی پسندی کے مخالف ہونے کے باوجود ناراضگی کا اظہار یا پتھراؤ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ ایک طرف کھڑے ہوئے اور مزید خودمختاری کا مطالبہ کیا گیا۔ اور دوسری طرف عسکریت پسند اور نوجوان رکروٹس تھے جنھوں نے بندوق تھام لی ہے۔ سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ ، خدا نہ کرے، تب ہوگا جب پہلی جگہ والے ہزاروں کشمیر منتقل ہوکر دوسری جگہ والوں کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ بی جے پی کو تب احساس ہوگا کہ رئیل اسٹیٹ کی قیمت سستی نہیں ہے۔