اب مسلم ڈیلیوری بوائے سے بھی نفرت

   

خیر اللہ بیگ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری
تلنگانہ میں حکومت نے اعتدال کا راستہ ترک کردیا ہے ۔ اس لیے منفی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے ۔ حضور نگر اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ اب انہیں پہلے سے زیادہ موافق عوام حکمرانی کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ حکومت کے ذمہ دار کو یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ تلنگانہ کی فضاء موافق ٹی آر ایس ہے ۔ عوام کی اس بھر پور تائید کے ساتھ بہترین حکمرانی کو یقینی بنانا ضروری ہے ۔ آر ٹی سی ملازمین کی یہ ہڑتال اس فضاء کو خراب نہیں کرسکی ۔ اس ہڑتال کے سامنے چیف منسٹر مختلف قسم کے بند باندھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ہڑتال آگے بڑھ رہی ہے اس کے باوجود چیف منسٹر اس ہڑتال کی شدت میں دب کر فیصلہ کرتے دکھائی نہیں دیتے تاہم ہائی کورٹ کے احکام کے بعد وہ آر ٹی سی کے ہڑتالی ملازمین سے مشروط بات چیت کریں گے ۔ اچھی حکمرانی کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ جہاں مسئلہ پیدا ہوتا ہے وہاں ضرورت کی تکمیل کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ اپنی انا کی خاطر مسئلہ کو طول دینے سے مسائل مزید شدید رخ اختیار کر جاتے ہیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو یہ سبق تو ملنا چاہئے کہ انہوں نے 50,000 آر ٹی سی ملازمین کے ساتھ نمٹنے میں نرم رویہ اختیار نہیں کیا ۔ 5 اکٹوبر سے آر ٹی سی بس سڑکوں سے غائب ہیں ۔ ہڑتال کی وجہ سے اسکولس اور کالجس کی تعطیلات میں توسیع دے کر طلباء کے تعلیمی سال کو دھکہ پہونچایا گیا ۔ احتجاجی ملازمین کا کہنا ہے کہ کے چندر شیکھر راؤ حکومت نے ان کے اور دوسرے مطالبات کا جائزہ لے کر انہیں حل کرنے کا تیقن دیا ہے ۔ کے سی آر ایک طرف اپنے سامنے مخالفین کی فوج کھڑا کررہے ہیں دوسری طرف مخالفت کرنے والوں کو اہم عہدے دے رہے ہیں ۔ حلقہ گجویل میں ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کے خلاف سیاسی جنگ میں ناکام کانگریس کے سینئیر لیڈر وی پرتاپ ریڈی کو ٹی آر ایس کی رکنیت دی گئی ہے ۔ پارٹی میں لینے کے بعد کے سی آر نے انہیں اب تک کوئی کام نہیں دیا تھا لیکن اب انہیں تلنگانہ اسٹیٹ فارسٹ ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا نیا چیرمین مقرر کیا ۔ کے سی آر کے سابق حریف یہ عہدہ بی نریندر ریڈی سے حاصل کرلیں گے ۔ ٹی آر ایس کی مقبولیت کا اندازہ حضور نگر اسمبلی حلقہ کے ضمنی نتائج سے ہوگیا ہے ۔ یہ نتائج کے سی آر کے ریفرنڈم کا کام کرتے ہیں ۔ ریاست تلنگانہ کی فرقہ وارانہ اور سیاسی فضا خراب کرنے والوں نے اپنا مقام مضبوط بنالیا ہے ۔

آئندہ چند دنوں یا مہینوں میں تلنگانہ کے اندر نفرت کا ماحول پیدا کرنے والے کامیاب ہوں گے ۔ نفرت کا بینج بونے والوں نے تجربہ کرلیا ہے کہ شہر میں مسلمانوں کے خلاف ہندو طبقہ کو کس طرح اکسایا جاسکتا ہے ۔ پرانے شہر میں ایک شخص نے مسلم ریسٹورنٹ سے چکن 65 کا آرڈر تو دیا لیکن ڈیلیوری بوائے مسلم ہونے سے یہ آرڈر منسوخ کردیا ۔ اس طرح کا یہ دوسرا واقعہ ہے یہ کس قدر تکلیف کی بات ہے کہ شہر میں ایسے لوگ بھی رہنے لگے ہیں جو پیٹ تو مسلم ہوٹل اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے تیار کردہ غذا سے بھرنا چاہتے ہیں لیکن اس غذا کو کسی ہندو ڈیلیوری بوائے سے منگوانا چاہتے ہیں ۔ یہ حالات تبدیل ہونے کی علامت ہے ۔ شہر اور تلنگانہ میں بھی سارے ملک کی نفرت کی سیاست شروع ہوگئی ۔ مسلم ڈیلیوری بوائے سے آرڈر والا چکن 65 لینے سے انکار کرنے والا شخص اس شہر کی تہذیب اور روایات پر کھرا نہیں اترا ہے لیکن اس واقعہ سے یہ سبق لینا چاہئے کہ سیاستدانوں نے عام انسانوں کے ذہنوں کے اندر نفرت کا زہر کس قدر بھر دیا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کی سازشوں سے بے خبر ہمارے مسلم برادری کے لوگ اپنی دنیا میں مست ہیں ۔ کل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ حیدرآباد میں مسلمان کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں ۔ صبح سے کھانا شروع کرتے ہیں اور رات دیر گئے تک کھاتے رہتے ہیں ۔ خصوصا پرانے شہر میں تو یہ ’ رواج ‘ عام ہے ۔ اس علاقہ کے لوگوں نے کھانے میں اپنے لیے ایک منفرد اور خصوصیت پیدا کرلی ہے جس دن دعوت نہ ہو اس دن ہوٹل کا کھانا ضرور بنالیا گیا ہے ۔ شادی خانوں میں تو لنگر لگا رہتا ہے اس کے باوجود ہوٹلوں میں صبح ، دوپہر ، شام لوگوں کا ہجوم ہی دکھائی دیتا ہے ۔ صبح کا ناشتہ پایہ شوربا ، اڈلی وڈا دوسہ سے ہوتا ہے ۔ دوپہر میں بریانی ، مرغ مسلم اور دم کا مرغ وغیرہ کھانے کے لیے ہوٹلوں کا رخ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی جارہی ہے ۔ دوپہر میں یا سہ پہر میں لسی ، فالودہ ، کچوریاں ، سموسے ، پکوڑی اور دیگر لوازمات بھی ان کے پیٹ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ رات کو پتھر کا گوشت ، کبابوں اور فاسٹ فوڈ کی دوکانوں میں روشنی ہی روشنی ہوتی ہے ۔ پان ، سگریٹ بھی الگ شوق ہیں ۔ اس طرح مسلمانوں کی بڑی تعداد خوش خوراک ہی نہیں بسیار خور بھی ہوتے جارہی ہے ۔ اس خوش خوراکی میں ان کے لیڈروں نے بھی سب کو مات دیدی ہے ۔ علماء نے بھی کھانے کے معاملے میں ایک دوسرے کو مات دیدی ۔ جو علماء ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے لیکن ساتھ مل کر دعوت اڑاتے ہیں ۔ شادی خانوں ، ہوٹلوں میں ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں لیکن نماز پڑھنے کی بات آتی ہے تو ایک دوسرے کے پیچھے پڑنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اگر علماء کا یہ حال اور رویہ بڑھتے بڑھتے ایک خراب ماحول برپا کرے گا تو پھر دیگر ابنائے وطن بھی مسلم ڈیلیوری بوائے سے کھانا لینے سے انکار کرنے کو اپنا حق جتاتے رہیں گے ۔ جو علماء دسترخوان پر ایک دکھائی دیتے ہیں وہی علماء مسلمانوں کو درپیش مسائل اور حکومت کی پالیسیوں سے ہونے والے نقصانات کے خلاف آواز اٹھانے کی بات آتی ہے تو اپنے اپنے الگ اسٹیج سجاکر عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ این آر سی کے مسئلہ پر ان دنوں مسلمانوں کو کہیں خوف زدہ کیا جارہا ہے تو کہیں گمراہ کیا جارہا ہے ۔ حکومت کے خلاف جانے کی ہمت نہیں یا اجازت نہیں لیکن جلسے تو ضرور کریں گے ۔ جہاں خود نمائی اور اپنی برتری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی مسئلہ پر مسلمانوں کے اندر پھوٹ پائی جانے کا ثبوت بھی پختہ کریں گے ۔ ملک کا بڑھتا سیاسی درجہ حرارت اور اس درجہ حرارت میں مسلمانوں کو جھلسا دینے کی سازش خطرناک ہوتی جارہی ہیں ۔ مسلمانوں کے لیے یہ حکومتیں مایوس کن ہیں ۔ مسلم معاشرے کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات قدرت کے رہتے طریقہ کار کے خلاف ہیں ۔ یہ معاشرہ راتوں کو جاگتا اور دن کو سوتا ہے ۔ دکھ یہ نہیں کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ملک کی موجودہ فرقہ وارانہ فضا میں بھی کس طرح کی زندگی گزار رہی ہے ۔ دکھ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں برباد ہورہی ہیں ۔ حیرت یہ ہے کہ اس بربادی کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے ۔ حیدرآباد میں مسلم ڈیلیوری بوائے سے ہوٹل کا کھانا حاصل کرنے سے انکار کرنے والے نوجوان تک کتنے علماء نے ملاقات کی اور دین اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے اس کے اندر کی نفرت کو ختم کرنے کی کتنی کوشش کی گئی یہ غور کرنا چاہئے اگر اب تک شہر کے با اثر نہ سہی ایک عام مسلم شہری بھی اس مخالف مسلم ذہنیت کے حامل ہندو شخص سے ملاقات کر کے بہتر حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کرے کہ وہ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہے ۔ جہاں تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر بھائی چارہ سے رہتے ہیں ۔ مسلمانوں کے تعلق سے اس نے اپنے اندر نفرت کیوں پیدا کرلی ۔ اس کا پتہ چلانا بھی ہمارے علماء اور عام مسلمانوں کو ضروری تھا ۔ مسلم معاشرہ کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے قائدین ، علماء کرام اور مسلم دانشور طبقہ کو دیگر ہم خیال سیکولر ہندو افراد کے ساتھ مل کر اس طرح کے نوجوانوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ملک کا دستور اس ملک کے عوام کا عہد نامہ ہے لیکن اس عہد نامہ کو پامال کرنے والی طاقتوں کو کھلی جھوٹ دی جارہی ہے ۔ نتیجہ میں آج یہ حالات پیدا ہوئے ہیں کہ مسلم ہوٹل کے پکے ہوئے کھانے کا آڈر کیا جاتا ہے لیکن یہ کھانا لانے کے لیے کسی ہندو ڈیلیوری بوائے کو مقرر کرنے گاہک کی ہدایت مسلمانوں کے تعلق سے اس کے حسد یا نفرت کا معاملہ ہے ۔ اگر ہم اس طرح کے واقعہ پر ایک دوسرے کا منہ ہی تکتے رہ جائیں تو پھر ایک بعد دیگر وہی طریقہ اپنائے جائیں گے۔٭
kbaig92@gmail.com