اب کی بار ۔ 100 کے پار

   

اس میں شائد ہے میری بربادی
مجھ پہ اُن کا کرم زیادہ ہے
اب کی بار ۔ 100 کے پار
یقینی طور پر ہندوستان میں گذشتہ 7 برسوں کے دوران وہ کچھ ہوتا جا رہا ہے جو کبھی گذشتہ 7 دہوں میں نہیں ہوپایا تھا ۔ جو ’ کارہائے نمایاں ‘ کانگریس نہیںکرسکی وہ نریندرمودی حکومت سرانجام دے رہی ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پٹرول ملک کے کچھ شہروں میں 100 روپئے فی لیٹر کے پار ہوگیا ہے ۔ یہ قیمت بھی ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ بین الاقوامی مارکٹ میں خام تیل کی قیمتیں سب سے زیادہ بلندی پر نہیں ہیں۔ جس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیاریل سے بھی زیادہ ہوگئی تھیں اس وقت بھی ملک میں پٹرول 100 روپئے فی لیٹر نہیں ہوا تھا لیکن اب جبکہ عالمی منڈی میں یہ قیمتیں 70 ڈالرس فی بیاریل کے آس پاس ہیں تب ملک میں پٹرول کی قیمت 100 روپئے فی لیٹر کے پار ہوتی جا رہی ہیں۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کچھ شہروں میں یہ قیمت سنچری کو پار کرچکی ہے اور جس بی جے پی نے پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ کرتے ہوئے ملک میں اقتدار حاصل کیا تھا اب وہ ان انتہائی قیمتوں کو واجبی قرار دینے میں مصروف ہوگئی ہیں۔ بی جے پی اور حکومت کے چاٹو کار ٹی وی اینکرس بھی اب ایسی ایسی تاویلیں ان اضافی قیمتوں کی تلاش کرنے میں جٹ گئے ہیں ان سے ان کی غلامی کا طوق مزید گہرا ہوسکے اور وہ حکومت کے حامیوں میں شمار ہوسکیں۔ جو لوگ 2013 میں یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ نریندر مودی کی حکومت میں پٹرول 30 تا 35 روپئے فی لیٹر مل سکتا ہے وہ اب 100 کے پار ہونے پر بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ اسے بھی مودی حکومت کا کارنامہ قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ خود وزیر اعظم کا یہ حال ہے کہ وہ سرکاری خزانہ کو بھرنے کی مہم میں جٹے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ پٹرول پر بیرونی ممالک پر انحصار کو سابقہ حکومتوں نے کم نہیں کیا ہے اسی لئے ملک میں پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ عوام کو اس حقیقت سے واقف نہیں کروا رہے ہیں کہ پٹرول اور ڈیزل پر مرکزی حکومت اکسائز ڈیوٹی اور مختلف طرح کے سیس میں مسلسل اضافہ کرتی جا رہی ہے ۔
عوام پر جو بوجھ نریندر مودی حکومت عائد کرتی جا رہی ہے وہ سابق میں کسی بھی حکومت میں عائد نہیں کیا گیا ۔ کسی نہ کسی بہانے سے عوام کی جیبوں پر مسلسل ڈالہ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ دودھ سے لے کر ادویات تک ہر شئے مہنگی ہوتی جا رہی ہے ۔ پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ کے نتیجہ میں ترکاری اور دوسری ضروری اشیا کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں جبکہ روزگار کے نام پر حکومت کا کہنا ہے کہ لوگ پکوڑے بیچ کر 200 روپئے کمالیں یہ ان کیلئے کافی ہے ۔ جو کوئی 200 روپئے کمائے گا اسے 100 روپئے پٹرول پر خرچ کرنے کے بعد دال چاول کیلئے کچھ نہیں بچ پائے گا ۔ حکومت عوامی ضروریات اور ان کے مسائل کے تئیں مسلسل بے حس ہوتی جا رہی ہے اور ہر مسئلہ کو اپنے کارپوریٹ دوستوں کے حساب سے دیکھ رہی ہے ۔ عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کی اسے کوئی فکر اور پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ مسلسل کارپوریٹس کو فائدہ پہونچانے میں لگی ہوئی ہے ۔ ایسے وقت میں جبکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ریکارڈ توڑ بلندی پر پہونچ چکی ہیں گیس اسٹیشنس اڈانی کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔ ائرپورٹس پر اڈانی کا قبضہ ہوچکا ہے ۔ کئی سرکاری اداروں پر امبانی اور اڈانی کی مہر لگ چکی ہے اور جو باقی رہ گئے ہیں انہیں بھی بہت جلد امبانی اور اڈانی کو فروخت کردیا جائیگا ۔ ایسے میں یہ بات طئے شدہ ہے کہ عوام پر جو بوجھ عائد کیا جا رہا ہے وہ مستقبل قریب میں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا ہی جائیگا اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں رہے گا ۔
حکومت معمولی ٹوتھ پیسٹ سے لے کر فولاد پر تک بھی ٹیکس وصول کرتی جا رہی ہے اور اس کی کوئی حد باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ جس بی جے پی نے ایک قوم ایک ٹیکس کا نعرہ دیتے ہوئے نصف شب کو پارلیمنٹ اجلاس طلب کرتے ہوئے جی ایس ٹی لاگو کیا تھا اسی بی جے پی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کو بھی جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لانے سے انکار کردیا ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل پر 150 فیصد سے زائد سرچارچ ‘ ٹیکس یا اکسائز ڈیوٹی حاصل کی جا رہی ہے ۔ حکومت اپنے ہی عوام کو لوٹ رہی ہے ۔ اس سلسلہ کو فوری بند ہونا چاہئے ۔ حکومت کو ہوش میں لانے کیلئے عوام کو بھی حرکت میں آنے کی ضرورت ہے اور اپوزیشن کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے ۔