اب ہندی زبان پر اختلافات

   

اُٹھاؤ ساز ملاؤ دلوں کے تاروں کو
نئی حیات کے نغمے سنا رہا ہوں میں
اب ہندی زبان پر اختلافات
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس بیان پر اختلافات پیدا ہونے لگے ہیں کہ صرف ہندی زبان ہی ہے جس کے ذریعہ ملک کو متحد کیا جاسکتا ہے ۔امیت شاہ کا کہنا تھا کہ ہندی دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت ہے اور یہ ہندوستان بھر میں بھی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ۔ امیت شاہ نے ہندی دیوس کے موقع پر اپنے پیام میں یہ بات کہی تھی تاہم ان کا یہ بیان سب کیلئے قابل قبول نہیں رہ گیا ہے ۔ یقینی طور پر یہ حقیقت ہے کہ ہندی ہندوستان کی سرکاری زبان ہے اور یہ ملک میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ اس زبان نے ملک کے عوام کو بھی ایک دوسرے سے جوڑے رکھا ہے لیکن یہ حقیقت بھی ایسی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں دوسری بھی بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ سمجھی جاتی ہیں اور ان زبانوں کی اپنی الگ سے ایک شناخت ہے اور انفرادیت ہے ۔ اگر ان زبانوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے تو ملک جو گلدستہ ہے وہ متاثر ہوگا اورا س کے نتیجہ میںلوگوں میں ایک دوسرے سے جڑے رہنے کی بجائے ایک دوسرے سے دوریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ ہندی کا چلن سب سے زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ صرف اسی زبان کو دوسروں پر زبردستی مسلط کیا جائے ۔ جہاںہندی اس ملک کی سرکاری زبان ہے تو دوسری زبانوںکو بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کی اہمیت کا اعتراف کیا جاتا ہے ۔ علاقائی زبانوں کا جہاں تک تعلق ہے یہ بھی ہندوستان کی شناخت کہی جاسکتی ہیں۔ ٹامل ہو ‘ ملیالم ہو ‘ بنگالی ہو ‘ تلگو ہو یا پھر دوسری زبانیں ہوں ان کا بھی ایک زبردست تہذیبی ورثہ ہے اور ان زبانوں کا بھی ایک شاندار کلچر ہے ۔ ان زبانوں کے ذریعہ بھی ہندوستان کے کلچر کا اظہار ہوتا ہے اور یہ زبانیں بھی کثرت میں وحدت کی ہندوستان کی شناخت کہی جاسکتی ہیں۔ یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ ایک زبان سرکاری ہوتی ہے لیکن دوسری زبانوں کی اہمیت اور ان کی شناخت و انفرادیت سے انکار نہیں کیا جاتا اور اب بھی ایسا ہی کیا جانا چاہئے ۔ جہاںمرکزی حکومت ہندی زبان کو اہمیت دیتی ہے وہیں ریاستوں میں علاقائی زبانوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔
امیت شاہ کا جو بیان ہے اس کو اگر لسانی اختلاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ غیر ضروری کہا جاسکتا ہے تاہم سرکاری اعتبار سے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندی کو ہندوستان کی شناخت کہا جاتا ہے ۔ ملک میں یہ زبان سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اسی کا چلن عام ہے ۔ تاہم مقامی سطح پر بے شمار زبانیں ہندوستان میں بولی جاتی ہیں۔ بات صرف جنوبی ہندوستان کی نہیں ہے جہاں ہر ریاست کی اپنی الگ زبان ہے اور اس زبان کو سرکاری زبان کا موقف بھی حاصل ہے ۔ تلنگانہ بلکہ متحدہ آندھرا پردیش میں اردو زبان کو بھی دوسری سرکاری زبان کا موقف حاصل ہے ۔ ان زبانوں کو بھی بڑی تعداد میں لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔ ان زبانوں میں بھی لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کا کام کیا ہے ۔ ہندوستان میں کوئی بھی زبان ایسی نہیں کہی جاسکتی جس کے نتیجہ میں عوام میں اختلاف پیدا ہوتا ہو ۔ ملک کی تمام زبانیں ایک عظیم کلچر رکھتی ہیں اور ان کی اپنی ایک منفرد شناخت ہوتی ہے اور ان کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے سے قریب آتے ہیں اور آپس میں جڑ جاتے ہیں۔لوگوں کو جوڑے رکھنے کیلئے جتنی اہمیت ہندی زبان کی ہے اتنی ہی اہمیت علاقائی زبانوں کی بھی ہے ۔ صرف ایک زبان کے ذریعہ لوگوں کو جوڑے رکھنا شائد ممکن نہ ہو لیکن ہر علاقہ میں اسکی اپنی زبان ہوتی ہے اور لوگوں کو اس سے محبت بھی ہوتی ہے اوراس کا لحاظ بہت ضروری ہے ۔ علاقائی زبانیں بھی ایسی ہیں جن سے لوگوں کے جذبات بھی وابستہ ہوتے ہیں۔
امیت شاہ کے بیان پر ڈی ایم کے کا جس طرح کا رد عمل حاصل ہوا ہے اس کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جنوب کی ریاستوں کے عوام کی اپنی زبانوں سے جذباتی وابستگی ہوتی ہے ۔ چاہے تلگو ہو ‘ چاہے ملیالم ہو ‘ چاہے ٹامل ہو ‘ چاہے کنڑ ہو یا پھر مشرقی ہند میں بنگال کی زبان ہو ۔ ہر ریاست کے عوام اپنی زبانوں کو بے انتہاء اہمیت دیتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو غیر ہندی ریاستوں میں بھی زبردستی ہندی زبان کو مسلط کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر زبان کو اس کا موقف دیا جانا چاہئے ۔ ہر زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر زبان کے کلچر کو فروغ دیا جانا چاہئے ۔ یہ حقیقت محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر زبان ہندوستان کی ہی زبان ہے ۔ جس طرح سے ہندی ملک کی شناخت ہے اس طرح سے ہر زبان ہندوستان کی ہی شناخت ہے اور اس کا اعتراف کیا جانا چاہئے ۔
صنعتی پیداوار میں بھی گراوٹ
معیشت کے مختلف شعبوں میں سست روی اور گراوٹ کے رجحانات سامنے آتے جا رہے ہیں جو تشویش کی بات ہے ۔ گذشتہ دنوں جہاںآٹو موبائیل اور مینوفیکچرنگ شعبہ میں شرح ترقی متاثر ہوئی تھی اور پھر جملہ گھریلو پیداوار کی شرح گھٹ گئی تھی اس کے بعد اب صنعتی پیداوار کے جو اعداد و شمار حکومت نے جاری کئے ہیں ان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ پیداوار بھی گھٹ گئی ہے ۔ مرکزی حکومت حالانکہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ صنعتی پیداوار میں بہتری کے اشارے ملنے شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت حقائق کو محض اپنی نظر سے دیکھتے ہوئے عوام کو بھی اسی تاثر کو قبول کروانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ایسا کرنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی ۔ جو لوگ اور گوشے معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں وہ محض حکومت کی مخالفت میں ایسا نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ملک کی صورتحال کے تعلق سے فکرمندی اور تشویش کا شکار ہیں اور ان کا بھی حکومت کو احترام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر واقعی صورتحال تشویش کا باعث ہے تو حکومت کو اس پر توجہ کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے اور معیشت کو ایک بار پھر متحرک کرنے اور اس میں نئی جان ڈالنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اگر حکومت جس طرح کے دعوے کر رہی ہے ان میں بھی کوئی صداقت ہے تو انہیں بھی عوام کے سامنے تفصیل سے پیش کرتے ہوئے ان کی تشویش کو دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ کسی ایک صورتحال پر دو مختلف رائے درست نہیں ہوسکتیں۔ کسی ایک پر اعتبار کیا جاسکتا ہے اور ایسا کروانا حکومت کا کام ہے ۔ حکومت کو حقائق سے نظریں چرائے بغیر صورتحال کا سامنا کرنے اور اسے بہتر بنانے کیلئے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ملک کی معیشت پر تشویش کی بات ہے جس کا ہر ہندوستانی شہری سے تعلق ہے ۔