اتحاد کو اختیار کرو

   

پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے قبل جب پوری دنیا میں اُمراء و غرباء کو ظلم و ستم کی چکی میں پیس رہے تھے، کمزور و ناتواں انسانوں پر وحشت و بربریت کی شعلہ فشانی کی جاتی تھی، ان میں اپنے زیر نگیں رکھنے تعلیم سے دور اور کنارہ کش رکھا جاتا تھا۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑکر درندوں سے بھی زیادہ بدترین سلوک کیا جاتا تھا۔ خدائے واحد نے اس دنیا میں اس نبیؐ کا ارسال فرمایا جو یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ، سارے جہاں کا درد اپنے قلب و جگر میں سمیٹے ہوئے تھے۔ غریبوں کے مددگار، امیروں کے دلدار، بیواؤں کے ہمدم ومددگارتھے۔ یہ ہمارے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور ہم ان کے پیروکار ہیں، اُمتی ہیں۔ تو ہم اپنا جائزہ لیں کہ اپنے نبیؐ کے نقشِ قدم کو کتنا اختیار کیا ہے۔ کیا اتباعِ نبیؐ کا تقاضہ صرف یہی ہے کہ بڑے بڑے لباس زیب تن کرلیا جائے؟ عبادات کے پہلو کو تو اختیار کیا جائے، مگر تحفظات کے پہلو سے کنارہ کشی کی جائے۔ یہ کیسی اتباع ہے؟
جب مہاجرین و انصار کے مابین سخت حالات پیش آئے تھے، قریب تھا کہ جنگ چھڑ جائے، ایک دوسرے کی گردنیں اُڑادی جائے، مگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح صلح کی تھی؟ کیا اتحاد و اتفاق کا درس دیا تھا اپنی اُمت کو۔