کیدارناتھ آفات2013سے گاؤں میں زمین کھسکنے کامسئلہ شروع ہوا تھا۔ مگر معاملہ اس وقت سنگین ہوگیا جب 2021اکٹوبر میں جب گاؤں کے اوپرکے کھیتوں میں دراڑیں نظر انے لگیں۔
پینگڑھ۔ جوشی مٹھ میں مٹی کے تودے گرنے جیسے واقعات اتراکھنڈ کے ضلع چمولی کے پین گڑھ گاؤں میں پیش آنے کی وجہہ سے یہاں کے مقامی لوگ زمین کھسکنے اور گھروں کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے پر اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مجبور گاؤں والے راحت کیمپوں‘ ٹین شیڈس اور اسکولوں میں پناہ لے رہے ہیں۔
کرناپریاگ المور قومی شاہراہ پر تھارلی کے قریب پندار ندی کے ساحل پر قدیم آبادیوں میں سے ایک مذکورہ گاؤں کے 40خاندان بے گھر ہوگئے ہیں او رپناہ گزینوں کی طرز پر زندگی گذار رہے ہیں۔ نسل درنسلاس گاؤں میں رہنے والے 90سے زائد خاندان ہیں۔
کیدارناتھ آفات2013سے گاؤں میں زمین کھسکنے کامسئلہ شروع ہوا تھا۔ مگر معاملہ اس وقت سنگین ہوگیا جب 2021اکٹوبر میں جب گاؤں کے اوپرکے کھیتوں میں دراڑیں نظر انے لگیں۔
ایک دیہاتی گوپال دت نے کہاکہ ”دراڑیں ابتداء میں چھوٹے تھے اورایک سال کے وقت کے بعد وہ بڑے سوراخوں میں تبدیل ہوگئے“۔پچھلے سال 21اکٹوبر کو زمین کھسکنے کاایک واقعہ اسی مقام کے قریب میں پیش آیا جہاں پر دراڑیں نمودار ہوئے اور گھروں پر بڑے تودے گرنے کے سبب چار لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔
انہوں نے کہاکہ زمین کھسکنے کے سبب رونما ہونے والے ملنے سے تقریباگاؤں کانصف حصہ متاثر ہوا ہے اور جو لوگ اس علاقے میں رہتے تھے انہیں اپنے گھر چھوڑ کر کہیں او رپناہ لینا پڑا تھا۔ متاثرہ خاندانوں میں سے بعض نے اپنے رشتہ داروں کے مکانات میں پناہ لی وہیں دیگر گاؤں کی ایک اسکول عمارت میں منتقل کئے گئے۔
گاؤں کا واحد سرکاری پرائمری اسکول ایک راحت کیمپ میں تبدیل ہوگیا‘ اتھارٹیز کو ایک کیلومیٹر سے زائد فاصلے پر ایک جونیر کالج کی عمارت میں اسکول کلاسیس کا اہتمام کرنے پر مجبو رہونا پڑا۔ اسکول جانے والے 5سے 11سال کے بچوں کواسکول پیدا جانا پڑتا ہے اورراستہ میں انہیں ایک ندی بھی ملتی ہے۔
تھرالی بلاک کے تعلیمی افیسر ادرش کمار نے پی ٹی ائی کو بتایاکہ”پرائمری اسکول کی عمارت میں کلاسیس کے دوبارہ بحال کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔
ضلع انتظامیہ کی جانب سے گاؤں کے لئے بحالی کی پالیسی بنانے کے بعد ہی اس کے بارے میں کچھ حتمی کہاجاسکتا ہے“۔درایں اثناء چامولی ضلع ڈساسٹر مینجمنٹ افیسر این کے جوشی نے کہاکہ ایک محفوظ مقام پر ٹن شیٹ تعمیرکیاجارہا ہے جہاں پر گاؤں کے متاثرہ لوگوں کومنتقل کیاجائے گا۔
تاہم ایک گاؤں کے ساکن سندرلال نے الزام لگایاکہ شٹ گھنے جنگل کے قریب تعمیرکیاجارہا ہے جہاں پر پانی او ربرقی ندارد ہے۔لال نے کہاکہ کوئی بھی وہاں پیدل نہیں جاسکتا ہے گرما کے دنوں میں زندگیوں کو وہاں پر خطرہ ہے کیوں کہ جنگل کی نیلگیری کے پتوں کو جلدی آگ لگتی ہے۔
د ت نے کہاکہ حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ متاثرین کو تیار اور موثر مکانات دیں مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ حکومت نے آفات سماوی راحت میں چارماہ قبل متاثرہ خاندانوں کو 5000روپئے دی تھی۔
سریندر لال نے کہاکہ ”ارضیاتی سائنسداوں نے زمین کھسکنے کے واقعات کے بعد گاؤں کا سروے بھی کیا مگر اس سے کیانتیجہ نکلا اس کی جانکاری نہیں ہے“۔
جگن موہن سنگھ گاڈیا جوفوج سے ریٹائرڈ ہوئے اور زمین کھسکنے سے متاثرہ علاقے میں رہتے ہیں نے کہاکہ ”مجھے اپنا گاؤں نہیں چھوڑنے کے عہد پر افسوس ہے“۔ضلع ڈیزاسٹرمینجمنٹ افیسر جوشی نے کہاکہ تباہ شدہ مکانات کے مالکان کو معیارکے مطابق معاوضہ دیاگیاہے۔
انہوں نے کہاکہ نقل مکانی بحالی پالیسی کے مطابق کی جائے گی او رمحفوظ مقامات کی نشاندہی کی جارہی ہے۔