اترپردیش سی اے اے مظاہرے’ہم فوری طور پر اپنے بچے کو اسپتال نہیں لے جاسکے‘ ہم پولیس سے گھبرائے ہوئے تھے‘

,

   

گھر والوں کے مطابق ’رائیس جو پاپڑ فروخت کرتا تھا‘ جمعہ کے روز عید گاہ نماز کے لئے گیاتھا‘ جو کانپور میں نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کا مرکز بنا ہوا تھا‘۔

کانپور۔ جیسے ہی جمعہ کے روز گرد وغبار کم ہوا‘ محمد شریف نے اپنے 30سالہ بیٹے کو خون میں لت پت حالت میں زمین پر گرا دیکھا جس کے پیٹ میں گہرا زخم تھا‘ پڑوسی کے کچھ بچوں نے اس کو کانپور کے بیگم پورا علاقے میں واقعہ ان کے گھر اس کوترکاری کی ایک بنڈی پر ڈال کر لائے۔

قریب کے قبرستان میں تدفین کے کچھ گھنٹوں بعد پیر کے روز ان کے 58سالہ والدہ قسمت النساء نے کہاکہ ”اس (محمد رائیس) کا رات بھر خون بہتا رہا۔ زخم کے اطراف ہم نے ایک شرٹ باندھ دیاتھا۔

وہ کہہ رہا تھا کہ پولیس نے اس پر گولی چلائی۔ اسکو پیٹ میں گولی ماری گئی تھی“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ایک خانگی گاڑی میں اگلے روز ہم اس کو اسپتال لے کر گئے“۔

والدین نے کہاکہ فوری طور پر ہم رائیس کو اسپتال لے کر نہیں گئے کیونکہ ہم گھبرائے ہوئے تھے۔

والد جس کی عمر 61سال ہے اور اب بھی وہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لیبر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں نے کہاکہ ہم دہشت میں تھے“۔

پریشان حال شریف نے کہاکہ ”لوگوں نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم اپنے بیٹے کو اسپتال لے کر جائیں گے تو پولیس گھر کے دوسرے ممبرس بھی فساد بھڑکانے کا مقدمہ درج کرے گی“

۔یومیہ اجرت پر کام کرنے والے رائیس کے بہنوائی 28سالہ محمد عارف نے کہاکہ”اگر جمعہ کی رات میں ہی اس کو اسپتال لے کر جاتے‘ شائد وہ زندہ رہ جاتا“۔گھر والوں کے مطابق ’رائیس جو پاپڑ فروخت کرتا تھا‘ جمعہ کے روز عید گاہ نماز کے لئے گیاتھا‘ جو کانپور میں نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کا مرکز بنا ہوا تھا‘۔

رائیس عید گاہ مسجد احتجاج میں جاں بحق ہونے والے تیسرے فرد تھے۔ان کے والد نے کہاکہ ”کیونکہ میں وہاں پرنہیں تھا مجھے نہیں معلوم ہوا کیاتھا‘ مگر میرے بیٹے نے مجھ سے بتاا کہ اس کوپولیس والوں نے مارا ہے۔

ہم سے کہاگیاتھا کہ وہ ربر کی گولیاں ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ حقیقی گولیاں ہیں۔ہفتہ کے روز ہم اس کو اسپتال لے کر گئے او راتوار کے روز اس کی موت ہوگئی۔ ہم پولیس سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ہم نے اپنا بیٹا کھویا ہے اوراس سے متعلق کچھ اور نہیں کرسکتے“۔

سات بچوں جس میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں شریف نے مزیدکہاکہ ”دوسرے بچے میرے ساتھ نہیں رہتے۔

وہ واحد تھا جو اپنے والدین کی دیکھ بھال کرتاتھا جو کچھ بھی کماتاتھا وہ ہمیں دیتا تھا“۔ درایں اثناء پولیس نے کہاکہ رائیس کی موت ہائپاٹائٹیس بی کی وجہہ سے ہوئی ہے۔

ایس ایچ او باپو پورا پولیس اسٹیشن امیت تومار نے کہاکہ ”ڈاکٹرس نے رائیس کی موت کی وجہہ ہائپا ٹائٹیس بی سے یولی ہے۔ انہوں بتایا کہ اگر اس کو وہ بیماری نہیں ہوتی تو شائد وہ بچ بھی جاتا تھا“۔

تاہم انہوں نے کہاکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ انہوں نے ابھی تک نہیں دیکھی ہے۔تاہم والدین نے رائیس کو ہائپا ٹائیٹیس بی ہونے کی انہیں جانکاری سے انکار کیا۔

شریف نے کہاکہ ”اس کے متعلق ہمیں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کو کوئی بیماری نہیں تھی“

۔درایں اثناء عید گاہ مسجد کے باہر بے شمار تباہ گاڑیاں تھیں۔ علاقے کی کئی عورتوں نے ان کے ساتھ پیٹائی کرنے کاپولیس کو مورد الزام ٹہرایاہے۔ ایک 35سالہ غزالہ صبیحہ ہاشمی جوکانپور میں شہید بھگت سنگھ لاکالج میں قانون کی پڑھائی کررہی ہیں نہ کہاکہ ”انہیں پولیس کے جوانوں نے گھر سے گھسیٹ کر نکالا اور عید گاہ مسجد کے باہر لے گئے جہاں پر انہوں نے مارپیٹ کی۔

ہاشمی نے کہاکہ ”میرے اس شدید چوٹیں لگی ہیں جس کو میں دیکھا نہیں سکتی“اورہاشمی نے اپنے ہاتھوں اور ٹخنوں پر لگی چوٹوں کے نشان دیکھائے۔

ایک اور30سالہ عورت جس نے نام ظاہر کرنے کی خواہش کی ہے نے کہاکہ ”میرے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ وہ ہمیں خوفزدہ کرناچاہتے تھے اور ہم خوفزدہ ہیں۔

تمام مردوں کو لے کر گئے اور پولیس اسٹیشن میں بند کردیا۔ ان میں کچھ تو اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں“۔

جب ان الزامات کے متعلق استفسار کیاگیاتو ایس ایس پی(کانپور) اننت دیو نے کہاکہ ”مذکورہ الزامات درست نہیں ہیں۔ اگر عورتوں کے ساتھ مارپیٹ کی گئی ہے تو مجھ سے شکایت کریں یا پھر ڈی ایم او رکسی بھی عہدیدار سے رجوع ہوں۔ اب تک میرے پاس ایسی کوئی شکایت نہیں ائی ہے“