اترپردیش میں ڈبل انجن حکومت کا ایندھن عنقریب ختم ہوگا: جئے رام رمیش

   

4 جون کو لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد یہ انجن بالکل بند ہو جائیں گے

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کے سہارنپور کے دورے سے پہلے کانگریس نے ہفتہ کو ریاست میں متعدد مسائل پر سوالات اٹھائے اور دعویٰ کیا کہ ریاست کی ‘ڈبل انجن والی حکومت’ کے پاس اب بہت کم ایندھن بچا ہے اور لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے کے بعد 4 جون کو یہ بند ہو جائے گی۔ وزیر اعظم مودی نے ہفتہ کو سہارنپور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ۔ کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا، ’’آج وزیر اعظم مودی اتر پردیش کے سہارنپور کا دورہ کریں گے، جہاں ‘ڈبل انجن والی حکومت’ خطرناک حد تک کم ایندھن پر چل رہی ہے۔ 4 جون کو بند ہونے سے پہلے ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم سوالوں کا جواب دیں گے کہ مشینری کیوں خراب ہو رہی ہے۔‘‘ سہارنپور اپنی لکڑی کے نقش و نگار کے لیے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ یہ لکڑی کے شہر کے طور پر مشہور ہے۔ یہ صنعت 200 سال سے زیادہ پرانی ہے۔ یہ شہر کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ 7 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مودی حکومت کی غلط پالیسیوں نے لکڑی کی تراش خراش کی صنعت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ پہلے نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی اور آخر میں بغیر کسی تیاری کے لگائے گئے لاک ڈاؤن نے اس صنعت کو برباد کر دیا ہے۔ یہ اب تک اس سے ابر نہیں پائی ہے۔ جب یہ صنعت اپنے عروج پر تھی تو یہ 1500 کروڑ روپے سے زیادہ کی اشیاء برآمد کر رہی تھی لیکن آج اس میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ سہارنپور کے معاملہ میں ’ڈبل انجن‘ والی حکومت تین گنا قصوروار ہے۔ پی ایم مودی کا ان لاکھوں کاریگروں سے کیا کہنا ہے جو ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں؟ ریاست اور مرکز کی بی جے پی حکومتوں نے اس قدیم صنعت کو فروغ دینے کے لیے کیا کیا ہے؟ زراعت کی وزارت کے مطابق اتر پردیش ملک میں گنے کی پیداوار کرنے والی سب سے بڑی ریاست ہے۔ مغربی یوپی کے کسان کھاد اور کیڑے مار ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے گنے کی مقررہ قیمت (ایس اے پی) میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن بی جے پی حکومت نے قیمت بڑھا کر صرف 360 روپے فی کوئنٹل کر دی ہے، جو یوپی کے کسانوں کے لیے ناکافی ہے۔
اگر ہم اسے افراط زر کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ کافی کم ہے۔ یہ پنجاب کے 386 روپے فی کوئنٹل اور ہریانہ کے 391 روپے فی کوئنٹل سے بہت کم ہے۔ جیسا کہ یو پی پلاننگ کمیشن کے سابق ممبر سدھیر پوار نے تبصرہ کیا، ’’یوپی میں ایس اے پی، جو پہلے ان پٹ لاگت سے طے کیا جاتا تھا، اب انتخابی شیڈول کے مطابق ہوتا ہے۔ کیا وزیر اعظم یہ بتا سکتے ہیں کہ بی جے پی حکومت کسانوں کو ان کے کام کا مناسب معاوضہ دینے سے کیوں ہچکچا رہی ہے؟‘‘ کارروائی کرنے کے بار بار وعدوں کے باوجود یوپی حکومت آوارہ جانوروں کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جانوروں کی مناسب پناہ گاہیں نہ ہونے کی وجہ سے مویشی مالکان اپنے جانوروں کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال سے گریز کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کسانوں کے لیے فصلیں اگانا مشکل ہو گیا ہے اور زیادہ قیمت والی فصلیں ضائع ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے فصلوں کے تنوع کی کوششیں بھی ناکام ہو رہی ہیں۔ کسانوں کو اب 24 گھنٹے نگرانی کرنی پڑتی ہے اور کچھ بیلوں کے حملوں کی وجہ سے اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔ عوامی بحث کا رخ موڑنے کے بجائے کیا وزیر اعظم ایسے مسائل پر بات کر سکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں مقامی لوگوں سے متعلق ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کے پاس کیا ویژن ہے؟