اترپردیش نفرت کی سیاست کا گڑھ، دستور کی دھجیاں

,

   

متنازعہ انسداد تبدیلیٔ مذہب آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ، یوگی ادتیہ ناتھ کو 104 سابق آئی اے ایس آفیسرس کا مکتوب

نئی دہلی : اترپردیش حکومت کے متنازعہ انسداد تبدیلیٔ مذہب آرڈیننس نے ریاست کو نفرت کی سیاست کا گڑھ بنادیا ہے۔ یہ آرڈیننس ریاست کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور تباہی یقینی ہے۔ سابق نیشنل سیکوریٹی اڈوائزر شیو شنکر مینن ، سابق خارجہ سکریٹری نروپما راؤ اور سابق اڈوائزر برائے وزیراعظم ٹی کے اے نائر کے بشمول 104 سابق آئی اے ایس آفیسرس کی دستخط کے ساتھ ایک مکتوب چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کو روانہ کیا گیا ہے۔ مکتوب میں ان سابق آفیسرس نے یوگی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس غیر قانونی آرڈیننس کو فی الفور واپس لیں۔ مکتوب پر دستخط کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ چیف منسٹر یو پی کے بشمول تمام سیاستدانوں کو دستور سے متعلق از خود معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس دستور کے نام سے آپ نے حلف لیا ہے، اس کا پاس ولحاظ رکھا جانا چاہئے ۔ ان سابق آفیسرس نے کہا کہ اترپردیش میں دستور کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے۔ اترپردیش کسی وقت گنگا جمنا تہذیب سے جانا جاتا تھا لیکن اب یہ ریاست نفرت کی سیاست میں تبدیل کردی گئی ہے۔ یہاں سماج میں پھوٹ اور انتشار پیدا کردیا گیا ہے۔ حکمرانی کے ادارے اب فرقہ وارانہ زہر گھول رہے ہیں۔ ان عہدیداروں نے یوگی ادتیہ ناتھ حکومت سے مخاطب ہوکر لکھا ہے کہ اترپردیش بھر میں نوجوان ہندوستانیوں کے خلاف آپ کا نظم و نسق گھناونے اور خطرناک ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ہندوستانی عوام جو سادگی کے ساتھ آزاد ملک میں آزاد شہریوں کے طور پر اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن یوگی نظم و نسق نے ان کی حق آزادی کو سلب کرلیا ہے۔ اس مکتوب میں مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی کئی زیادتیوں کے واقعات بھی درج کرلئے گئے ہیں۔ ان میں ایک واقعہ اس ماہ کے اوائل میں اترپردیش کے مرادآباد سے تعلق رکھنے والا دل دہلادینے والا کیس بھی شامل ہے، جس میں دو مسلمانوں کو مبینہ طور پر بجرنگ دل نے نشانہ بنایا۔ انہیں پولیس اسٹیشن لیجاکر انہیں ایک ہندو لڑکی سے زبردستی شادی کرنے کے الزامات پر گرفتار بھی کروایا گیا۔اس واقعہ کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پولیس سب کچھ جانتے ہوئے خاموش رہی۔مسلم نوجوانوں کی تفتیش کی گئی اور انہیں ہراساں کرتے ہوئے نقصان پہنچایا گیا۔ مسلم خواتین کو اس قدر ڈرایا دھمکایا گیا کہ ان کا حمل ساقط ہوگیا ۔ مکتوب میں مزید لکھا گیا کہ مسلم نوجوان نے حملہ آوروں سے اپیل کی کہ اس کی بیوی کو نہ ستایا جائے کیونکہ وہ حاملہ ہے۔ گزشتہ ہفتہ یو پی کے بجنور میں بھی دو مسلمانوں کو لو جہاد کے نام پر ظلم و ستم کا شکار بنایا گیا اور ان پر الزام عائد کیا کہ مسلم نوجوانوں نے 16 سالہ ہندو لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کردیا گیا ۔ اس الزام کی لڑکی اور اس کی والدہ دونوں نے تردید کی۔الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی گزشتہ ہفتہ اسی طرح کے نکتہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے بین مذہب کی شادی کو جائز قرار دیا تھا ۔