اداروں اور تحریکوں کی کامیابی کا راز||از: شعیب حسینی ندوی

,

   

زمانی تقاضوں اور فکری بنیادوں پر دعوت و عمل اور تعلیم و تربیت کے ادارے منصۂ ظہور پر آتے ہیں، عزم و اخلاص اور ندائے وقت سے ہم آہنگی نیز مضبوط وموثر شخصیت کی نمائندگی کسی تحریک کو زندگی بخشتی ہے اور اس کو فروغ حاصل ہوتا ہے، نوجوان اس کی آواز کو اپنی آواز بناتے ہیں۔

صدیوں پر محیط تاریخ کسی تحریک کی زندگی انہی بنیادوں پر پیش کرتی ہے۔

میری تحریر کا موضوع تحریکوں و اداروں کا تعارف یا انکا تقابلی یا تجزیاتی نقشہ پیش کرنا نہیں، بلکہ ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ عموما آج ہماری تحریکیں اور ادارے زوال پذیر کیوں ہیں یا انکے دور آغار میں ترقی پذیر ہونے کا راز کیا تھا۔

خیال رہے کہ اخلاص ہر انفرادی و اجتماعی کام کے عقبی میں مقبول ہونے کی شاہ کلید ہے، اور دنیا میں بھی برکتوں کا حصول اس پر منحصر ہے لیکن دنیوی نظام میں کامیابی اور ترقی کے لیے ترتیب و تنظیم، شورائیت اور غیر جانبداری، اہل کو بلحاظ اہلیت ترقی دینا، چاپلوسی کے منافع کو مستحکم ادارتی وشورائی نظام کے ذریعہ بند کرنا، خودرائی و خودنمائی کو مجموعی فیصلوں اور تحریکی ڈھانچہ کے زیر اثر لاکر کمزور کرنا ضروری ہے۔

دوسرا ایک نکتہ یہ ہے کہ مقاصد کی تعیین کے بعد تحریک و ادارہ کو نمایاں شخصیت کے گرد محصور نہ کردیا جائے کہ ہر تخلیقی کوشش اس کے چہار دیواری میں بند ہوکر ہی مقبولیت پا سکے، بلکہ نئے دماغ، نئے اجتہاد اور نئی تخلیقی خدمات کو خصوصی پذیرائی دی جائے بشرطیکہ وہ اصولوں اور بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔

اثر انگیزی اور انقلابی تاثیر کا سرچشمہ میر کارواں اور کارکناں کا سوز دروں، حرارت باطنی، قلبی دردمندی، فکری ارجمندی، جذبۂ صادقہ کا آتش فشاں اور عزم و عزیمت کی سوزش اور سرفروشی کی تپش ہے جو ہزاروں دلوں کو گرمادے اور حیات میں حرارت پیدا کردے، کیونکہ ادارے یا تحریک سے محض رسمی تعلق یا مفادات کی وابستگی کوئی انقلابی روح زندہ نہیں کر سکتی۔