چین تنازعہ سے حکومت کے نمٹنے کے طریقہ کار کو کانگریس تنقیدوں کا نشانہ بنارہی ہے
نئی دہلی۔اروناچل پردیش کے 15مقامات کے چین حکومت کی جانب سے ناموں کو تبدیل کردئے جانے کے بعد مذکورہ کانگریس نے جمعہ کے روز مودی کی زیر قیادت حکومت کو ”عدم کاروائی اور ہندوستان کی علاقے پر قبضہ کے لئے چین کا نام لینے سے شرمانے“ کا حوالہ دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایاہے۔
راجیہ سبھا میں لیڈر اپوزیشن ملکا ارجن کھڑگے نے کہاکہ ”چین نے ارونا چل پردیش کے 15مقامات کا نام بدل دیاہے۔ حال ہی کے خلاء سے لی گئی تصویریں دیکھاتی ہیں کہ ہمارے خطہ میں چین نے دو گاؤں تعمیر کئے ہیں۔
وزیراعظم اور ان کے بیجنگ جنتا پارٹی لیڈران چین کا نام لینے سے بھی شرمارہے ہیں۔ وہ صرف چین کی طرف سے زمین پر قبضہ سے توجہہ ہٹانا او راس سے انکارکرنے کا کام ہی کرتے ہیں“۔
ایک ایسے وقت میں یہ تنقید منظرعا م پر ائی ہے جب چین نے نئے سرحدی قوانین کا نفاذ عمل میں لایاہے‘ مذکورہ چین کی حکومت نے اروناچل پردیش کے 15مقامات کانام اپنے نقشہ میں بدل دیاہے۔
چین کے وزیر شہری امور نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے ارونا چل پردیش میں 15مقامات کے ناموں کو ’معیاری‘ کردیا ہے جس کا چین کے نقشوں میں استعمال کیاجائے گا۔ ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے چین نے ارونا چل پردیش میں بعض مقامات کا نام تبدیل کیاہے۔ سال2017میں اس سے قبل چین نے چھ مقامات کانام تبدیل کیاتھا۔
اکٹوبر23نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹانڈ نگ کمیٹی جو چین کے اعلی مقننہ ادارہ ہے نے ایک نئے قانون کو منظور کرتے ہوئے یہ حوالہ دیاتھا کہ مذکورہ قانون ”ملک کے زمینی سرحدی علاقوں کاتحفظ اور استحصال“۔
مذکورہ کمیٹی نے کہاتھا کہ نیا قانون یکم جنوری سے لاگو ہوگا۔یہ قانون خصوصیت سے ہندوستان کے ساتھ سرحدوں کے لئے نہیں ہے۔ ہندوستان کے بشمول چین 22,457کیلومیٹر کی زمینی سرحدیں 14ممالک کے ساتھ شیئر کرتا ہے‘ جس میں مانگولیااور روس کے بعد تیسری بڑی سرحد ہندوستان سے جڑی ہے۔
نئے سرحدی قوانین میں 62ارٹیکلس اور سات باب ہیں۔ مذکورہ قوانین کے بموجب مذکورہ پیپلز آف رپبلک آف انڈیا سرحدوں کے نشانات قائم کرے گا تاکہ واضح طور پر سرحد ھر سرحدی اراضی کی نشاندہی کی جاسکے۔
نشاندہی کی قسم کا فیصلہ متعلقہ پڑوسی ممالک کے ساتھ معاہدہ میں ہوگا۔چین تنازعہ سے حکومت کے نمٹنے کے طریقہ کار کو کانگریس تنقیدوں کا نشانہ بنارہی ہے