اروند کجریوال پہلے جیسے ’’سکیولر ‘‘نہیں رہے

   

راج دیپ سردیسائی
آخر گزشتہ دہے کے انتہائی کامیاب سیاسی اسٹارٹ اَپ کیلئے کوئی ایوارڈ ہوتا تو اس معاملے میں اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی سب سے آگے رہتی کیونکہ کوئی اور سیاسی جماعت اس قدر مختصر مدت میں ڈرامائی طور پر اثرانداز نہ ہوسکی جتنی کجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی نے عام آدمی پر اثر ڈالا۔ اس کی تائید و حمایت حاصل کی اور اس پارٹی کو بلاشبہ دارالحکومت دہلی میں کبھی میڈیا کی زبردست توجہ حاصل رہی تو کبھی میڈیا نے اسے یکسرنظرانداز کردیا اس کے باوجود یہی کہا جاسکتا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے میڈیا کو مجبور کردیا کہ وہ اسے کوریج دے۔ اس کی سرگرمیوں کو اجاگر کرے اور عوام کی بہبود کیلئے شروع کئے گئے، اس کے پروگرامس پراجیکٹس اور اسکیمات پر روشنی ڈالے۔ میڈیا نے یہ سب کچھ نہ چاہتے ہوئے مجبوراً کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا عام آدمی پارٹی دہلی سے باہر بھی اپنی موجودگی کا بڑے پیمانے پر احساس دلاسکتی ہے ؟اور خود کو ایک قومی سیاسی جماعت کے طور پر پیش کرسکتی ہے؟ اسے ہر حال میں فوجی سطح پر خود کو منوانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2022ء کے اسمبلی انتخابات عآپ کے اس سیاسی سفر میں بہت اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اروند کجریوال کی پارٹی کم از کم تین ریاستوں میں اہم دعویداروں کی صف میں شامل ہے۔ خاص طور پر ریاست پنجاب میں فی الوقت کانگریس کا اقتدار ہے اور کانگریس اندرونی خلفشار کا شکار ہے جس کے نتیجہ میں وہ پنجاب میں ایک سنجیدہ دعویدار کے طور پر ابھری ہے۔ گوا جیسی ریاست کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عام آدمی پارٹی وہاں بادشاہ گر کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ اتراکھنڈ میں عام آدمی پارٹی امیدواروں کے باعث کانگریس یا بی جے پی دونوں کے امکانات متاثر کرسکتی ہے اور دونوں پارٹیوں میں سے کسی ایک کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے مختلف ریاستوں میں مختلف حکمت عملی اپنائی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں وہ اشرافیہ کے خلاف بڑھتی ناراضگی سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ شہری علاقوں میں کانگریس اور اکالی دل کے خلاف خود کو مضبوط کیا ہے۔
گوا میں عام آدمی پارٹی خود کو ایک Idealistic کے طور پر پیش کررہی ہے۔ ایک متوسط طبقہ کی پارٹی کی حیثیت سے عوام کے سامنے جارہی ہے۔ ایک ایسی پارٹی کے طور پر جو موجودہ ریاستی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی جگہ عوام دوست پالیسیوں کو متعارف کروانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اسے اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ گوا میں ’’آیا رام، گیا رام‘‘ کا ماحول ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ ہے کہ وفاداریاں سکوں کے عوض خریدی جارہی ہیں جبکہ اتراکھنڈ میں عام آدمی پارٹی دہلی کی طرز پر عوام کو تعلیم، صحت کا خوبصورت ماڈل یا نمونہ پیش کررہی ہے۔ عآپ، اتراکھنڈ کے رائے دہندوں کو یہ احساس دلا رہی ہے کہ وہ موثر مقامی حکمرانی کا ماڈل پیش کرے گی تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔ غرض عام آدمی پارٹی خود کو دوسری سیاسی جماعتوں بالخصوص بی جے پی اور کانگریس کے بہتر متبادل کے طور پر پیش کررہی ہے۔ عام آدمی پارٹی آج اپنی آنکھوں میں ترقی و خوشحالی کے خواب سجائے والینٹرس کی ایک فوج پر مشتمل ہے اور جہاں اروند کجریوال کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کجریوال کی پالیسیوں میں اور انداز کارکردگی میں بھی اچھی خاصی تبدیلیاں نوٹ کی گئیں جس کا اندازہ اس کی اہم ترین اکسائز پالیسی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس نے تعلیم اور بحث کے شعبوں میں اختراعی اقدامات کئے ہیں لیکن شہری بنیادی سہولتوں کے معیار میں بہتری لانے کیلئے اسے سخت جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب عام آدمی پارٹی کو ملک میں ابھرتی ایک سکیولر طاقت تصور کیا جاتا تھا لیکن 2020ء کے دوران دہلی میں جو بھیانک فسادات برپا ہوئے، اس پر موثر انداز میں قابو پانے میں اس کی ناکامی نے اور پھر شاہین باغ اور دہلی کے مختلف مقامات پر مخالف شہریت ترمیمی قانون مظاہروں کے تئیں اس کے معاندانہ رویہ نے عام آدمی پارٹی اور اس کی قیادت پر تنقیدوں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور اب حال یہ ہوگیا ہے کہ لوگ خاص طور پر دہلی فسادات کے متاثرین اور شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین اروند کجریوال کی پالیسیوں اور ان کے موقف پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف کی برخاستگی سے متعلق مودی حکومت کے منظورہ بل کی بھی تائید کی تھی جس کے بعد یہ اندازہ ہوگیا کہ کجریوال کی عام آدمی پارٹی ، اقلیتوں کی فکر سے آزاد ہوگئی ہے۔ اسے اقلیتوں کی حالت زار پر کسی قسم کی کوئی تشویش یا فکر لاحق نہیں ہے بلکہ اسے اپنے اقتدار کی فکر ہے حالانکہ اکثر و بیشتر لیفٹننٹ گورنر دہلی سے کجریوال حکومت کی نہیں بنتی۔ کانگریس نے تو اروند کجریوال اور ان کی حکومت کی مذکورہ پالیسیوں، اقلیتوں پر پولیس اور فرقہ پرستوں کے مظالم پر مجرمانہ خاموشی کو لے کر اس پر بی جے پی کی B ٹیم ہونے کا لیبل چسپاں کردیاہے۔ اسے ایک ایسی سیاسی جماعت قرار دیا جس نے ہندو قوم پرستی کی بڑھتی لہر سے سمجھوتہ کرلیا ہے ۔ اسے بھی ہندوتوا کیلئے نرم گوشہ رکھنے والی پارٹی قرار دیا جارہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عام آدمی پارٹی اقدار پر مبنی اخلاقی پراجیکٹ کو آگے بڑھانے والی پارٹی کے طور پر دیکھی جارہی تھی لیکن اب وہ ایک خالص سیاسی جماعت بن گئی ہے جس کے سیاسی عزائم سے سب واقف ہوچکے ہیں اور اس نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
اروند کجریوال نے حالات کا رُخ دیکھ کر اپنی پالیسی ایجنڈہ بھی بدل دیا۔ کجریوال نے بڑی ہشیاری بلکہ مکاری کے ذریعہ کسی بھی نظریہ کے دائرہ میں آنے سے خود کو اور پارٹی کو دور رکھا۔ انہوں نے بائیں بازو کی فراخدلانہ و آزادانہ پالیسی اپنائی اور نہ ہی دائیں بازو کی قوم پرست بننے کی کوشش کی۔ اب کجریوال وہ نیتا نہیں رہے جس نے 2014ء کے دوران صرف 44 دن کی حکمرانی کے بعد صرف اس لئے اپنی حکومت کا استعفیٰ پیش کردیا کیونکہ وہ انسداد رشوت ستانی ’’جن لوک پال بل‘‘ منظور نہیں کرواسکے تھے۔ کجریوال اب وہ کجریوال نہیں رہے جس نے 2014ء میں وارناسی سے نریندر مودی کو چیلنج کیا تھا۔ کجریوال اب دھرنا دینے والے کجریوال نہیں رہے اور اب وہ بااثر سیاست دانوں و شخصیتوں کو چیلنج کرنے والے بھی نہیں رہے۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب مودی اور بی جے پی کجریوال کے دشمن نمبرون تھے، لیکن کجریوال اب اس حقیقت کو جان گئے ہیں کہ کمزور قیادت کے تحت اور تنظیمی طور پر کمزور کانگریس، بی جے پی سے کہیں زیادہ ان کیلئے خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے وہ بی جے پی کے بجائے اکثر کانگریس کو نشانہ بنارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس نے ان پر بی جے پی کی B ٹیم ہونے کا لیبل چسپاں کردیا۔ اس کی مثالیں گجرات کے بلدی انتخابات، چندی گڑھ کے بلدی انتخابات ہیں۔ اسی طرح اب عام آدمی پارٹی، پنجاب میں پورے دَم خم کے ساتھ میدان میں اُتر رہی ہے تاکہ کانگریس کو نقصان پہنچایا جائے۔