اسان نکاح کی ایک قابل تقلید تقریب/  از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

,

   

  موجودہ دور میں مسلمان رسم و رواج اور خرافات میں گھرے ہوئے ہیں بالخصوص ہمارے ملک عزیز میں برادران وطن کی دیکھا دیکھی شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی رسمیں ادا کی جاتی ہیں جن کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور ان رسومات میں بہت زیادہ فضول خرچی اور اسراف سے کام لیا جاتا ہے جو کہ صریحاً اسلام کے خلاف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج والدین کو لڑکی کی ولادت پر خوشی کے بجائے فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اس کی شادی کیسے ہوگی۔ جہیز اور بے جا رسموں کی لعنت نے مسلم معاشرے کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ لڑکی کی شادی نہایت دشوار ہو گئی ہے۔ لڑکی کے والدین اپنی اولاد کے نکاح کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔

مسلمانوں میں شادی بیاہ کے موقع پر بیجا رسومات اور اسراف کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ کی “آسان اور مسنون نکاح مہم” کا اثر ملک کے مختلف حصوں میں ہو رہا ہے۔مخلصانہ جذبے کے ساتھ منظم طور پر انجام دی گئی اسلامی کوششوں کے مثبت اثرات و نتائج تو سامنے آتے ہی ہیں۔ملک کے مختلف حصوں سے انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح کیے جانے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں لیکن خصوصاً صوبہ مہاراشٹر میں مسنون طریقے پر نکاح کے انعقاد کا سلسلہ دراز ہے۔

 اسی مہینے میں صوبہ مہاراشٹرا میں سادگی کے ساتھ نکاح کی تقریب کے انعقاد کی کئ خبریں موصول ہوئی ہیں۔ حال ہی میں جناب پروفیسر احرار صاحب کے فرزند ارجمند حافظ عمیر کے نکاح کی خبر موصول ہوئی کہ وہ صاحب ثروت ہونے کے باوجود اپنے بیٹے کا نکاح انتہائی سادگی اور سنت نبویؐ کے مطابق کیا جوکہ قابل تقلید اور قابل ستائش عمل ہے۔

 پروفیسر صاحب نے ملت اسلامیہ کے سامنے اس پر آشوب دور میں سنت و سادگی کا یہ عملی نمونہ پیش فرماکر بہترین مثال قائم کی ہے۔ ”بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ“، اللہ تعالیٰ ان کےاس بیٹے کی نکاح کو مبارک فرمائے اللہ ان پر اپنی برکتوں کا نزول فرمائے اور زوجین کو بہترین طریقے پر جمع رکھے۔آمین

 پروفیسر احرار صاحب، ممبئی کے صابو صدیق کالج میں تعلیم دیتے ہیں، انہوں نے 19/ جنوری بروز جمعہ 2024 کو اپنے فرزند حافظ عمیر صاحب کا نکاح، امراوتی کے اقرار الحق صاحب کی دختر نیک اختر کے ہمراہ مسجد حضرت حذیفہ, تھیر گاو، پمپری چنچوڑ میں نہایت سادگی کے ساتھ سنت و شریعت کے مطابق کیاہے۔نکاح لڑکی کے ماموں افسر صدیقی صاحب کے یہاں پونہ میں ہواہے۔ ولیمہ بھی 21/ جنوری ممبرا میں نہایت سادگی کے ساتھ ہواجو اسراف اور فضول خرچی سے پاک تھا۔

دولہا حافظ عمیر علی گڑھ مسلم یونورسٹی میں ایل، ایل بی کا کورس کررہے ہیں یہ ان کی تعلیم کا آخری سال ہے. آپ ایل، ایل ایم بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اللہ کامیابی سے ہم کنار کرے۔ ان کے نکاح کا قصہ یہ ہوا کہ انھوں نے اپنے والد صاحب سے اشارتاً بتایا کہ انہیں نکاح کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے چنانچہ پروفیسر صاحب بیٹے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جیسے ہی ایک اچھا رشتہ ان کے سامنے آیا انھوں نے بیٹے کے سامنے پیش کیا۔ حافظ صاحب نے فوراً قبول کیا اور نکاح طے ہوگیا۔

حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ لڑکا لڑکی جب شادی کے لائق ہو جائے تو اس کی شادی کردینی چاہیے، محض عصری تعلیم کی وجہ سے شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے، روایت میں ہے کہ جس کی اولاد پیدا ہو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھی تعلیم دے، پھر جب وہ بالغ ہوجائے اس کا نکاح کردے، اگر بالغ ہوجائے اور اس کا نکاح نہ کرے، پھر وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے، تو اس کا گناہ (سبب کے درجہ میں) باپ پر ہوگا۔

یہ نکاح ان والدین کے لئے ایک پیغام ہے جواپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دینے کی فکر تو کرتے ہیں، لیکن اس طرح ان کی اصل ضرورت (نکاح) کو ضرورت سمجھ کر وقت پر کرنے کی فکر نہیں کرتے ہیں۔حالانکہ یہ بھی والدین کی دیگر ذمہ داریوں کی طرح اہم ذمہ داری ہے۔

اس نکاح کی تقریب میں لڑکے والوں کی طرف سے بارات میں کتنے سو اور ہزار لوگ نہیں آئے تھے؟ بلکہ صرف اور صرف 3 افراد ایک دلہے کے والد، بڑےبھائی اور دولہا خود شریک تھے۔حافظ صاحب علی گڑھ سے اپنے گھر ممبرا آئےاور وہاں سے یہ 3 افراد پر مشتمل جماعت پونہ آئی, کچھ پونہ کے دوست احباب کو بھی بلالیا گیا تھا جوکہ پرانے تعلق والےتھے۔ماشاء اللہ

 آج کل شادی اور منگنی کے نام پر جو رسمیں کی جاتی ہیں، ان کا ترک ضروری ہے، نیز مروجہ بارات بھی واجب الترک ہے، شادی کی محفل میں تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کی جو وباء پھیلی ہوئی ہے وہ تو قطعاً ناجائز ہے، ان سے احتراز ضروری ہے۔

 21/ جنوری کو ممبرا میں جو ولیمہ کی سنت ادا ہوئی. (یہاں کھانے سے مراد رواجی شادی کا کھانا نہیں بلکہ یہ تقریب بھی سادی اور تکلفات سے پاک تھی۔

اور اس مبارک نکاح کی مزید خوبصورت بات یہ تھی کہ مہر اس میں مہر فاطمی بشکل سونے کے زیور کے ادا ہوا۔

 عام طور پر بڑے بڑے لوگ باقی فضول خرچی بہت کھلے ہاتھوں سے کرتے ہیں لیکن مہر بہت کم طے کرتے ہیں. یہاں اس رواج کے خاتمے کی بھی کوشش کی گئی الحمد للہ. 

الغرض یہ مثالی اور مبارک اور قابل تقلیدنکاح ایک ساتھ کئی خرافات،مسرفانہ مصارف اور مشرکانہ مراسم پر کاری ضرب تھا. 

یہ لوگ غریب تھے اس لئے ایسا نکاح کیا؟ مولوی لوگ ہیں اسلئے شرعی نکاح ہوا؟ ایسا بھی نہیں بلکہ اتنی بڑی یونیورسٹی میں بیٹے کو پڑھانا، خود ممبئی کے بڑے کالج میں پروفیسر ہونا، مہر فاطمی طے کرنا یہ سب ان خیالات کا جواب ہے۔

 صحابہٴ کرام کے یہاں انتہائی سادگی سے نکاح انجام پاتا تھا حتی کہ صحابہٴ کرام مدینہ میں نکاح کرتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا پتہ نہ چلتا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے ہی میں ہوتے، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض ازواج مطہرات سے نکاح کا ولیمہ تو اس طور پر کیا کہ رفقاء سفر صحابہ سے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے کی جو چیز ہے وہ لے آئے، پھر سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر جمع شدہ چیزیں تناول فرمالی، بس ولیمہ ہوگیا، اس ولیمے میں نہ گوشت تھا اور اور نہ روٹی، صرف کھجور، ستو، پنیر اور اس طرح کی چیزیں تھیں جو صحابہٴ کرام اپنے اپنے پاس سے لے کر آئے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق جو اعمال انجام دئیے جاتے ہیں اس میں خیر وبرکت ہوتی ہے۔سیرتِ طیبہ میں انسانی زندگی کے مختلف امور کے لئے بہترین رہنمائی موجود ہے۔ حیات ِ انسانی کے ہر شعبے میں تعلیمات ِ رسولؐ رہبری کرتی ہیں،اسوہ ٔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش ِ نظر رکھ کر انسان اپنے اعمال کو بہتر کرسکتا ہے اور زندگی کا حقیقی لطف بھی حاصل کرسکتا ہے۔نکاح بھی اسلام کا ایک اہم ترین عمل ہے،دنیا کی دیگر قومیں اس سلسلہ میں بے بہرہ ہوسکتی ہیں لیکن مسلمانوں کو نکاح کے سلسلہ میں گراں قدر تعلیمات سے نوازا گیااور بیش قیمت ہدایات عطافرمائی گئیں ہیں۔دین اسلام میں اس عظیم عالیشان مرحلے پر انتہائی آسان وہ زریں اور روشن ہدایات موجود ہیں۔ لیکن دینی اعتبار سے یہ موقع جتنا آسان اور پر سہولت اور اہم ہے، اسی قدر ہم نے اپنی نادانی یا خواہ مخواہ کے بڑا پن میں اس کو دشوار اور مشکل اور ناقابل عبور بنا لیا ہے۔