اسرائیل خدا نہیں ہے|| از: شعیب حسینی ندوی

,

   

دنیا بھر میں اسرائیل کا جو ہوّا بنا ہوا ہے اس میں اسکی حیرت انگیز عسکری طاقت کے ساتھ ذرائع ابلاغ اور ذہن سازی کے وسائل پر مکمل تسلط بھی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا دجالیت کے نرغے میں ہے، ہم وہ دیکھتے ہیں جو دجال دکھانا چاہتا ہے، عالمی فیصلے اسی تناظر میں لیے جاتے ہیں جو دجال جال بن کر دکھاتا ہے۔

اسرائیلی استعماری ریاست گہری پلاننگ اور طویل سازش کا حاصل ہے، دنیا کے مؤثر انتظامی اداروں اور معاشی مصادر پر دجل و فریب کی آبیاری کرکے قبضہ جمانے کی دلخراش داستان ہے، اعلی ترین ٹکنالوجی، وسیع ترین رائے عامہ کے ذرائع، سپر پاور حکومتوں کی اعانت، مال کی بہتات کے ساتھ اسرائیل دنیا کے چھوٹے سے رقبہ پر قابض ہوتے ہوئے بھی سب سے طاقتور ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

حالیہ کاروائیاں جو سرزمین فلسطین پر جاری ہیں جن کا آغاز الشیخ جراح اسٹریٹ میں فلسطینی باشندوں کو علاقہ بدر کرکے یہودی آبادکاری کی ناپاک کوشش سے ہوا، یاد رہے سالِ گزشتہ مزعومہ امن معاہدہ کے تحت امریکہ کی ثالثی میں بعض ضمیر فروش عرب ملکوں نے اسرائیل سے اتفاقات کیے تھے اور شہر القدس کو اس استعماری ریاست کا دار السلطنت قرار دے دیا گیا تھا، اس کے بعد سے حکومت شہر القدس میں جو کہ کثیر آبادی والے فلسطینی باشندوں پر مشتمل شہر ہے یہودی آبادکاری کے لیے کوشاں ہے، جبری مکانات خالی کرانے کا سلسلہ شروع ہوا تو فلسطینی باشندوں نے رد عمل دکھایا اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بنے تو دوسری طرف شروع رمضان میں مسجد اقصی کے العمود دروازہ پر بندش لگانے اور تراویح کے بعد نمازیوں کو وہاں جمع نہ ہونے دینے کی ظالمانہ کاروائی کا آغاز ہوا جسکو جیالے باشندوں نے نا کام بنا دیا پھر رمضان المبارک کی پچیسویں شب میں نہایت وحشیانہ طریقہ پر اسرائیلی فوج مسجد اقصی میں داخل ہوکر ربر کی گولیوں کا نشانہ نمازیوں کو دوران نماز بنانا شروع کردیتی ہے، مسجد میں آنسو گیس کے گولے داغے جاتے ہیں اور صوتی بموں سے دہشت پیدا کی جاتی ہے، جس سے دسیوں نمازی اور معتکفین زخمی ہو جاتے ہیں، پھر تو عید تک کشیدگی کا ماحول مسجد اقصی میں بدستور قائم رہتا ہے اور کسی حد تک ابھی بھی قائم ہے۔ان حالات میں غزہ کی پٹی کے غیرتمند جیالے مسجد اقصی اور مقدسی فلسطینیوں کے دفاع میں کھڑے ہوتے ہیں، اس کے بعد سے نقشہ ہی بدل جاتا ہے، تحریک حماس میزائلوں کی برسات اسرائیلی علاقوں پر شروع کرتی ہے اور اپنی حیرت انگیز عسکری قوت کا مظاہرہ کرتی ہے، “واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل” کی عملی تفسیر پیش کرتی ہے، خیال رہے کہ غزہ دنیا سے کٹا ہوا چاروں طرف سے محصور جیل ہے اور حماس اپنوں سے چوٹ کھائی ہوئی بے سہارا تحریک ہے، پھر بھی وہ اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ غزہ سے سو دو سو کلو میٹر دور تک کے علاقہ انکی میزائلوں کی زد میں آنے لگتے ہیں، یہ بالکل غیر متوقع کاروائی مقبوضہ فلسطین کی اسرائیلی ریاست کو حواس باختہ کردیتی ہے کیونکہ جس آئرن ڈوم کا ڈھنڈورا وہ پیٹتی رہی ہے اور اسکی زبردست تجارت کرتی رہی ہے وہ فیل ہو گیا، بیشتر میزائل اپنے نشانہ تک پہنچے، جس کے نتیجہ میں پوری آبادی میں سراسیمگی پھیل گئی، خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا، لد اور تل ابیب جیسے دور دراز کے علاقے بھی نشانہ پر ہونے کی وجہ سے حالات کافی کشیدہ ہو گئے، لوگ گھروں کو چھوڑ کر پناہ گاہوں میں سر چھپانے لگے، دوسری طرف اسرائیل غزہ پر بمباریشروع کر چکا تھا اور کئی رہائشی عمارتوں کو منہدم کر چکا تھا، اب ناکامی سے بوکھلا کر ہسٹیریائی انداز میں تابڑ توڑ حملے کرنے لگا، ایک ایک دن میں دسیوں بڑی بڑی عمارتیں زمین بوس کرنے لگا، سیکڑوں بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنانے لگا، یہی اسکی ناکامی کی دلیل ہے، جب مد مقابل کا سامنا نہ کر سکے تو کمزور نہتوں کو لقمہ بنا کر اپنی تسکین کرنے لگے، قابل لحاظ امر یہ ہے کہ جو دنیا حقوق انسانی کے نام پر اتھل پتھل مچادیتی ہے جو ان وحشیانہ کاروائی کو جواز فراہم کرنےلگتی ہے یا چپی سادھ کر بیٹھ جاتی ہے، مسئلۂ فلسطین ملکوں کی منافقت جانچنے کا سب سے بہتر ذریعہ ہے، ہمارے مسلم عرب ممالک بھی مذمتی بیانات سے آگے کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

جو بات بطور خاص میں اجاگر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ *قابض مجرم اسرائیلی حکومت اپنی تمامتر سامانیوں کے باوجود چند مٹھی بھر جوانوں کے ہاتھوں زیر ہو رہی ہے یہ اس بات کو دکھاتا ہے کہ جنگیں حوصلوں سے جیتی جاتی ہیں نہ کہ اسلحوں سے، ایک لڑ رہا ہے مرنے کی تمنا کے ساتھ دوسرا لڑ رہا ہے زندگی کی شدید طمع کے ساتھ تو ظاہر ہے موت کا آرزو مند مر کر بھی جیت جاتا ہے،* اسرائیلی فوج کی ہمت نہیں ہو سکی کہ زمینی حملے کے لیے غزہ کی پٹی میں داخل ہو سکے وہ جانتے ہیں کہ انکی درگت بنادی جائے گی، وہ تو صرف آسمانوں سے نہتوں پر انکے گھروں کو ڈھاکر بڑی تباہکاریاں کرتے ہیں ورنہ جنگی میزان میں وہ تمامتر ناکام و نامراد ہیں۔