اسلام نے اُلفت و محبت کا درس دیاہے

   

سید شمس الدین مغربی
اسلام نے مسلمانوں کو اُلفت و محبت کا درس دیا ہے اور ایک دوسرے سے بلاوجہ نفرت سے منع کیا ہے ۔ جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی غیبت ، چغلی ، بہتان ، تہمت ، بغض اور حسد جیسی بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جبکہ آپس میں نفرت اور دشمنی ان سب باطنی بیماریوں کو پھیلاتی ہے ۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ سلام کو عام کرو ، چاہے آپ اس کو جانتے یا نہ جانتے ہوں ۔ جب کوئی شخص ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے تو فطری طورپر اس کے دل میں سلام کرنے والے کی محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ انسان مل جل کر رہنے والی مخلوق ہے لیکن ہر شخص کی پسند ناپسند اور مزاج ایک سا نہیں ۔ کوئی نرم مزاج ہے تو کوئی سخت مزاج ، کوئی قناعت پسند ہے تو کسی کی فطرت میں لالچ بھرا ہوا ہے ۔ طبیعتوں کے اس فرق کی وجہ سے کبھی کبھی مزاج نہیں ملتے اور تکرار ہوجاتی ہے ۔ نتیجہ بول چال بند ہوجاتی ہے مگر سوچنا یہ ہے کہ دینی نقطہ نظر سے ایسے حالات میں کیا کیا جائے جب دو آدمیوں میں تکرار ہوجائے اور ان کی بول چال بند ہوجائے تو کیا تعلقات ہمیشہ کیلئے کٹ جانے چاہئے یا تعلقات کو جوڑنے کی فکر کرنی چاہئے ۔ اسلام پسند نہیں کرتا کہ مسلمانوں کے تعلقات ٹوٹ جائیں اور وہ ایک دوسرے سے ہمیشہ کیلئے محبت اور ہمدردی سے محروم رہے ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ’’کسی مومن کیلئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ تعلقات توڑے رکھے ‘‘ ۔
حضور اکرم ﷺ کے فرمان کی اس روشنی میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ آدمی ہر کسی سے لڑکر تعلقات توڑتا رہے تو بلآخر وہ سب سے کٹ جائے گا آخر وہ کونسا شخص جس کو اپنے گھروں والوں سے ، دوستوں سے ، ملنے جلنے والوں سے کبھی کسی بات پر شکایت نہ ہو۔ اس لئے احسن طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر کبھی کسی سے ناراضگی ، تکرار یا غصہ کی وجہ سے بول چال بند ہوگئی تو جلد سے جلد کسی مناسب وقت پر اس سے بول چال شروع کردی جائے اور کوئی مناسب وقت پر صلح صفائی ہوجائے تاکہ تعلقات پہلے کی طرح اچھے اور شیریں ہوجائیں ، یہی سنت ہے ۔ ہر مسلمان کیلئے بالعموم اور رشتہ داروں کیلئے بالخصوص اپنے دلوں کو طرح کے حسد بغض اور کینہ سے پاک رکھنا چاہئے ۔ دل کی طہارت اور پاکیزگی ہی دراصل اعمال کی طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے ۔