اسلام کا تصور زندگی ہی فطری ہے

,

   

حضرت مولانا سید شاہ مصطفی رفاعی ندوی صاحب دامت برکاتہم (رکن اساسی بورڈ، بنگلور)

انسان کے تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات کا محور، اس کے تصورات ہوتے ہیں۔ یہ عام تصورات ، دراصل اس کے چند غیر متزلزل و پختہ اصولی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں ، بالفاظ دیگر انسانی اعمال و حرکات پر تو ہوتے ہیں اندرونی جذبات اور ذہنی تصورات کا۔ علامہ سید سلیمان ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’ آج کل علم نفسیات نے بھی اس مسئلہ کو بداہۃً ثابت کردیا ہے کہ انسان کی عملی اصلاح کے لئے اس کی قلبی و دماغی اصلاح مقدم ہے‘‘۔ (سیرۃ النبی جلد ۴؎)۔

حیات انسانی کے تعلق سے مختلف مکاتب فکر کے تصورات کیا ہیں ؟ عہد قدیم و عصر حاضر کے گہرے مطالعے سے چار نظریات کا پتہ چلتاہے۔ ایک مکتب فکر کا تصور زندگی یہ ہے کہ ’’ بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ ۔ عقیدۂ آخرت کے افکار پر مبنی یہ تصورحیات، عصر حاضر کا ایک عالمگیر نظریہ ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے علمبردار مادہ پرستی میں مبتلا ہیں۔ اس نظریہ میں جو اب دہی کا اندیشہ اور مسئولیت کا خطرہ نہیں ہے، لہذا بلالحاظ جواز و عدم جواز ، اپنے زور بازو سے، اپنی عقل و مہارت سے جو کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ سب اپنا ہے۔ انفرادی سطح سے، اجتماعی سطح سے اور حکومتی سطح سے،مسلسل رواں دواں وقوع پذیر چیرہ دستیاں اور غصب وغبن کی کارروائیاں ، اسی نظریہ کی دین ہیں۔ دوسرا ایک گروہ ہے جو ’’متاع حیات ‘‘ ہی کا منکر ہے۔ دنیاوی لذائذ و آسائشیں تو درکنار، خود دنیوی زندگی ہی کو سراسر گناہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی روح کے لئے مادی آسائش، ناپاکی و آلائش کا حکم رکھتی ہے۔ ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی صفحہ ۱۷ تا ۵۴) ۔ اسی تخیل نے اس گروہ کے لئے دنیا اور اس کی زندگی میں کوئی دلچسپی باقی نہیں چھوڑی اور وہ زندگی سے فرار ہوکر جنگل و بیابان میں یوگ و تپسیا اور نفس کشی سے اپنے تمام احساسات کو مارتا ہے اور ریاضت و رہبانیت کے ذریعہ خواہشات کو دباتا اور کچلتا ہے۔

تیسرا مکتب فکر ’’ افراط ہی افراط‘‘ کا حامل ہے۔ یہ اپنے کو خود مختار اور اپنے کو دوسروں سے زیادہ افضل اور بہت اعلی سمجھتا ہے۔ اس نظریہ کے حاملین غرور و تکبر کی ہوا اپنے دماغوں میں ہمیشہ بھرا رکھتے ہیں اور ’’ من أشد منا قوۃ‘‘ (ہم سے زیادہ قوت والاکون ہے؟)کی صدا بھی دنیا میں پرزور انداز میں لگاتے رہتے ہیں۔ گذشتہ صدیوں کی طرح آ ج بھی اکیسوی صدی میں امریکہ و یورپ میں اور روس کی استبدادی و استعماری اور استحصالی تمام حرکتوں (عراق و افغانستان اور فلسطین وغیرہ ملکوں میں ظلم کی انتہاء) کے پس منظر یہی نظریہ کارفرما ہے ، چوتھا مکتب فکر ’’تفریط‘‘ کی طرف مائل ہے ، یہ طبقہ اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے اپنی ذات کو ذلیل و خوار کرلیتا ہے۔ بت پرستی، شجر پرستی اور چڑھتے سورج کی پوجا، اسی نظریہ کی پیدا وارہے۔

انسانی زندگی کے تعلق سے ان تمام تصورات میں صرف ’’اسلام‘‘ کا تصور ہی ایک ایسا تصور ہے جو فطرت و حقیقت کے مطابق ہے۔ ؎

حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسم افلاطون

اسلامی تصور حیات میں دنیا اور انسان کے تعلق کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھا گیا ہے۔ نہ وہ زندگی برائے زندگی کا قائل ہے کہ زندگی صرف اور صرف برائے زندگی رہ جائے اور نہ زندگی برائے روحانیت کا قائل ہے کہ انسانی زندگی کو’’دین ودنیا‘‘ کے نام سے دو ٹکڑے کردے(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، دنیا کی کہانی از پروفیسر محمد مجیب صفحہ ۱۱۲)۔ بلکہ اسلام زندگی برائے ’’عبادت‘‘ کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون (میں نے جن و انس کو محض اپنی ہی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے) اور یہ کہ انسان ، نائب خدا ہے، انی جاعل فی الأرض خلیفۃ (میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں) یہاں یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ اسلام میں ’’عبادت اور خلافت‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ عبادت کا مفہوم ہے کہ آقا و مالک کی سپرد کی ہوئی ذمہ داریوں کو خوشدلی سے انجام دینا اور اپنے اختیارات کو اور اپنی قوتوں کو حاکم اصلی کے قانون کے مطابق صرف اس کی رضا کیلئے استعمال کرنا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر صفحہ ۶؎ )۔ اور خلافت کے معنی یہ ہیں کہ وہ جس کا نائب ہے اس کی مکمل نیابت کرے اور جتنی چیزیں اس کے پاس ہیں ، امین بن کر قوانین و احکام پر کاربند رہے، مالکانہ تصرف سے، من مانی استعمال سے پرہیز کرے۔

قدیم بت خانوں میں کاہن ، پجاری، یہودیوں میں بنی لادی اور ان کی نسل ، عیسائیوں میں حواریین اور ان کے جانشین پوپ، ہندوؤں میں برہمن کی طرح اسلام میں کوئی مخصوص فرد یاگروہ’’نائب خدا‘‘ نہیں ہے، بلکہ پوری نوع انسانی نیابت الہی کے منصب پر فائز اور سرفراز کی گئی ہے۔ نیابت کا مرتبہ ہر انسان کو شخصاً حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ اس رتبہ کی ذمہ داریوں کے بارے میں جوابدہ ہے۔ ارشاد باری ہے کہ ’’علیکم بأنفسکم‘‘ ( تمہیں پر جوابدہی ہے) اور ’’ لا تزر وازرۃ وزراخری‘‘ (دوسرے کا تم پر بوجھ نہیں) ارشاد نبوی ؐہے کہ ’’ کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘ (تم سب نگہبان ہو اور اپنے ماتحتوں کے بارے میں پوچھے جاؤگے) ماتحتوں میں اہل و عیال، اہم ہیں، چنانچہ فرمان الہی ہے کہ قوا انفسکم و اہلیکم ناراً (اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کو آگ سے بچاؤ)۔

’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ جو مسلمانان ہند کا مشترکہ متحدہ پلیٹ فارم ہے وہ اپنی ’’اصلاح معاشرہ‘‘ تحریک کے ذریعہ ملک بھر میں اسلام کے اس نظریہ حیات کو مثبت اسلوب میں بیان کرتا ہے تاکہ سب پریہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے کہ اسلام اپنے تصورات و نظریات میں ہر طرح کے غلو سے، افراط سے، تفریط سے مبرا ہے اور یہ کہ اس کے تمام اعتقادات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ چونکہ انسانی اعمال کا تمام تر دارو مدار اس کے تصورات و جذبات پر ہوتا ہے اس لئے ’’اصلاح معاشرہ‘‘ کے لئے یہی پہلو سب سے اہم ہوتا ہے کہ انسانوں کی اصلاح کے لئے کہ وہ کسی بھی طور افراط تفریط، اسراف تبذیر، شر و فساد اور ہر طرح کی بے راہ روی و تجاوز سے محفوظ ہوں، ان کے دل اور دماغ کی اصلاح کی جائے تاکہ دل میں غلط وسوسے نہ آئیں او ر دماغ میں ناپاک خیالات نہ ابھریں۔ ملک کے طول وعرض میں اس مؤقر بورڈ کے پلیٹ فارم سے براہ راست اور اس کی اپیل پر دیگر اداروں کی طرف سے وقفہ وقفہ سے اصلاح معاشرہ کے جلسے منعقد ہوتے ہیں اور الحمد للہ ان کاوشات کے نیک نتائج بھی ظاہر ہورہے ہیں ۔ ضرورت اس کی متقاضی ہے کہ اس سلسلہ میں ہرطرح کی کوششوں میں تسلسل لایا جائے تاکہ ثمرات مضاعف ہوں۔

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ