اسمارٹ فون نہیں زندگی بنایئے

   

محمد مصطفی علی سروری
کرونا وائرس کی وباء کے پیش نظر ملک بھر میں لاک ڈائون جاری ہے۔ اسکول، کالجس سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلبہ کی بھی تدریس کے لیے آن لائن کلاسیس لی جارہی ہیں۔ آن لائن کلاسس کے دوران دوطرفہ آڈیو ویڈیو کی ترسیل کے لیے Zoom نام کا اپلیکیشن اس وقت ہر طرف بڑے دھوم دھام سے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے ہی ایک ہائی اسکول کی آن لائن کلاس جاری ہے۔ کلاس لینے والے استاد کو اچانک اس وقت پریشانی لاحق ہوگئی جب ان کی کلاس میں شرکت کرنے والوں میں میاں خلیفہ، اُسامہ بن لادن، آکاش وانی، جیجا اور ڈان بھی شامل تھے۔

اب ذرا اس ٹیچر کی کیفیت کا اندازہ لگایئے جو پہلے تو آن لائن کلاس اور وہ بھی گھر سے لینے کے لیے تھوڑا سا نروس ہے۔ ایک گھنٹے کی کلاس کے لیے ایک گھنٹہ تیاری کر رہا ہے۔ گھر کے کس حصے میں بیٹھنا ہے، لائٹ کا صحیح انتظام ہونا ہے۔ فون کی بیٹری پوری چارج کر کے رکھنا ہے۔ انٹرنیٹ کنکشن چیک کر کے دیکھنا ہے اور پھر کلاس شروع ہونے سے عین قبل فون بند کر کے صرف انٹرنیٹ چالو رکھنا ہے۔ اتنا سب کرنے کے بعد اپنی کلاس کی

ID اور پھر پاس ورڈ واٹس ایپ کے ذریعہ بچوں کو بھیجتے ہوئے انہیں بتلانا ہے کہ کلاس کب اور کس وقت شروع ہوگی اور جب کلاس شروع ہوئی تو اس میں دنیا بھر کے بدنام زمانہ لوگ شامل ہوگئے۔
اب ذرا طلبہ کے سوالات بھی سن لیجیے کہ ٹیچر آپ تو اس ڈریس میں خوب جچ رہی ہو۔ سر ہم نے سنا ہے کہ آپ کی بیوی نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ ڈان نام کے طالب علم کو دیکھ کر ٹیچر جب پوچھتا ہے کہ ارے یہ ڈان کون ہے تو جواب آتا ہے ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
قارئین آن لائن کلاسز کے دوران کئی اساتذہ کو ایسے ہی کچھ ناخوشگوار تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلے تو طلبہ کا فرضی ناموں کے ساتھ کلاس میں شریک ہونا مسئلہ تھا۔ دوم ان کے سوالات جو بے تکے ہی نہیں بے ہودہ بھی تھے، آن لائن کلاس کے ڈسپلن کو خراب کرنے کے لیے کافی تھے۔ بہت سارے ٹیچرس کے لیے آن لائن کلاس لینے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ ایسے میں ان کے ساتھ طلبہ کے گھٹیا، نامعقول اور بے ہودہ سوالات…
قارئین آیئے اب ذرا اس صورتحال کا قدرے تفصیل سے تجزیہ کرتے ہیں کہ لاک ڈائون میں اسکول، کالجس بند ہونے کے سبب حکومتوں کی جانب سے طلبہ کو اگلی کلاسس میں Promote کرنے کے باضابطہ احکامات جاری کردیئے گئے لیکن لاک ڈائون کی ان طویل اور غیر منصوبہ بند چھٹیوں کو کارآمد بنانے کے لیے جب اسکول و کالجس کی جانب سے آن لائن کلاسس کا سلسلہ شروع کیا گیا تو اسکول اور کالج انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ٹیچرس کو توقع تھی کہ آن لائن کلاسس ریگولر کلاس روم کے مقابل نسبتاً بہتر اور ڈسپلن کے حوالے سے پرسکون رہیں گی۔ لیکن طلبہ خود اپنے گھروں میں اپنے والدین اور بڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی کلاسس کے دوران اپنے ٹیچرس کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کر رہے ہیں تو یہ کوئی مذاق میں لینے والی بات نہیں بلکہ ایک سنگین، قابل غور مسئلہ ہے۔

یہ 3؍ مئی 2020 کی بات ہے جب سوشیل میڈیا پر دہلی کے پاش اسکولس کے بچوں کے ایک سیکرٹ گروپ کی بات چیت اور فوٹوز بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہونے لگے۔ بچوں کے اس گروپ کا نام
“Bois Locker room”
بتلایا گیا۔ جو سوشیل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم انسٹاگرام پر بنایا گیا تھا۔ اس گروپ میں لڑکیوں کے اصلی فوٹوز اور ان کے ساتھ لڑکوں کے تبصرے شامل تھے جس میں ان حرکات کا ذکر کیا گیا جو لڑکے ان لڑکیوں کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ اس گروپ کے سب سے کم عمر ممبر کی عمر 13 سال بتلائی گئی۔
اخبار انڈین ایکسپریس کی6؍ مئی کی رپورٹ کے مطابق انسٹاگرام کے اس گروپ میں دسویں سے لے کر بارہویں کے طلبہ شامل ہیں۔ یہ سبھی طلبہ دہلی کے پاش اسکولوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے دوران ایک 15 برس کے لڑکے کو پوچھ تاچھ کے لیے طلب کیا جس کے دوران بچے نے کونسلر کو بتلایا کہ وہ اس گروپ کا ایڈمن نہیں ہے۔ اس کے دوست نے اس کو گروپ میں شامل کیا ہے۔ یہ مارچ کے مہینے کی بات ہے۔ بعد میں اس گروپ میں 51 ممبران شامل کیے گئے۔ پولیس اب ان سب کو ڈھونڈ رہی ہے۔ گروپ کے 21 ممبران کو نوٹس دی گئی ہے۔ جن میں سے 5 بچوں کو انسٹاگرام کے اس گروپ میں مسیجیس بھیجنے کے تعلق سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
جیسے ہی پولیس حرکت میں آئی بتلایا جاتا ہے کہ گروپ کے ممبر لڑکوں نے اپنے مسیجیس ڈیلیٹ کردیئے لیکن پولیس آئی ٹی ماہرین کی مدد سے سارے مسیجیس کو Retrive کر رہی ہے اور قوی توقع ہے کہ سب کو پکڑ لیا جائے گا۔ کیونکہ ان سب کے فونس کو پولیس نے ضبط کرلیا ہے۔ انسٹاگرام کمپنی سے بھی پولیس نے مدد طلب کر لی ہے۔قارئین دہلی کے اسکولس سے تعلق رکھنے والے ان کم عمر بچوں کی جنسی جرائم کی خواہشات منظر عام پر آنے کے بعد یہ موضوع دوبارہ بحث میں آگیا ہے کہ دہلی ریپ کیس کے مجرمین کو پھانسی دینے کے بعد بھی دہلی کو ریپ سے محفوظ نہیں بنایا جاسکا۔
اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹ آتا ہوں۔ دہلی کے اسکول کے بچوں نے اپنے گروپ میں جو فوٹوز استعمال کی وہ ساری کی ساری فوٹوز بالکل اصلی ہیں اور ان لڑکیوں کی جانب سے ہی خود اپنے سوشیل میڈیا کے اکائونٹ پر شیئر کی گئی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لڑکیوں کی جانب سے سوشیل میڈیا پر شیئر کی جانے والی فوٹو ہو یا ویڈیو کبھی بھی ان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ مسئلہ صرف دہلی کے بچوں کا نہیں بلکہ ہر جگہ کا ہے۔ اس لیے سبھی والدین ، سرپرست اور اساتذہ کو فکر کرنا ہوگا کہ وہ کیسے بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔

اخبار دی ٹیلیگراف نے 6؍ مئی 2020 کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں میدانِ تعلیم کے ماہرین نے بچوں کی تربیت کے متعلق بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے۔ امیتا ملا واٹل دہلی کے ایک پاش اسکول کی پرنسپل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ واقعہ ہمارے لیے آئینہ ہے۔ ذرا سونچئے ایک ایسے ماحول میں جب لاک ڈائون کے دوران بچے اپنے والدین اور سرپرستوں کے قریب اور گھر میں ساتھ رہ کر ایسی حرکات کرسکتے ہیں۔ ان سے دور رہ کر یہ لوگ کیا نہیں کرسکتے؟
سادنیا ملہوترا بچوں کی ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ بظاہر بچوں کو اپنی شناخت چھپاکر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اگر بچے ایسی غلط حرکات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ والدین کی جانب سے بچوں کی تربیت میں کمی ہے۔ جو انہیں بلوغت کو پہنچنے سے پہلے والدین کی جانب سے دی جانی چاہیے۔ انسان کا دماغ 25 سال کے بعد مکمل طور پر اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ اس سے پہلے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اپنے اطراف و اکناف کے ماحول سے متاثر ہوکر کرتا ہے یا پھر والدین کی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

قارئین لاک ڈائون کا دورانیہ ہمیں اپنے آپ کو احتساب کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ نقصان چاہے دنیا بھر کی دولت کا ہوجائے، دولت دوبارہ کمائی جاسکتی ہے۔ اگر بچوں کی تربیت میں غفلت ہوجائے تو خدا نخواستہ اس سے بڑا نقصان کچھ نہیں۔اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ اسمارٹ فون دلانے سے بچوں کی زندگی اسمارٹ نہیں بنتی بلکہ ان کو نیکی کی اور اچھے انسان بننے کی تربیت اسمارٹ بنا سکتی ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ماہ مبارک کے دوران اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی سمت توجہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین۔ یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com