اس بار ہواؤں میں بڑا زہر گھلا ہے

   

مودی حکومت ناکام … قومی حکومت کا تجربہ ضروری
گھر والے پریشان … باہر والوں سے ہمدردی

رشیدالدین
جمہوریت میں عوام کو کنگ میکر (بادشاہ گر) کا درجہ حاصل ہے لیکن ملک کے تبدیل شدہ سیاسی حالات میں عوام کیلئے بادشاہ گر کا موقف عارضی اور موقتی ہوتا ہے ۔ انتخابات سے لے کر نتائج کے اعلان تک سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے لئے عوام بادشاہ گر اور قائدین ان کے خادم ہوتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ منتخب حکومت اور نمائندوں کی میعاد پانچ برس ہوتی ہے جبکہ دو ماہ عوام کے لئے بادشاہ گر کے عہدہ کی میعاد ہے۔ اس مختصر مدت کے دوران رائے دہندوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے بلکہ پیر چھوکر آشیرواد حاصل کرتے ہیں۔ جیسے ہی نتائج کا اعلان ہوجائے معاملہ الٹ جاتا ہے۔ قائدین ، حاکم اور کل کے بادشاہ گر آج رعایا بن جاتے ہیں۔ کل تک جن کے پیر چھوتے رہے، ان پیروں کو مسائل کے حل کے لئے گھسنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ کل کے بادشاہ گر کو سیاسی قائدین اپنے محلوں میں چپل کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت تک نہیں دیتے۔ یہ سیاسی کھیل کئی دہوں سے جاری ہے ۔ عوام کی یادداشت چونکہ کمزور ہوتی ہے ، لہذا وہ دو ماہ کی بادشاہ گری پر قناعت کرتے ہوئے سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ عفو درگزر اور بھولنے کی عادت نے سیاستدانوںکو ڈکٹیٹر بننے کا موقع فراہم کردیا ہے ۔ حاکم اور رعایا کے علاوہ بھی حکومت اور عوام کے درمیان ایک اور رشتہ ہوتا ہے اور وہ اعتماد اور بھروسہ کا رشتہ ہے۔ اگر اس رشتہ کو ٹھیس پہنچے تو عوام کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ حکومت کو مسترد کردیں۔ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق کے بجائے ہر دو سال میں حکومت کی کارکردگی پر عوامی ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ غیر کارکرد حکومت کو برطرفی کی سزا ملے ۔ دستور نے منتخب نمائندوں اور حکومت کو پانچ سال کی گیارنٹی دی ہے جس کے نتیجہ میں جوابدہی کا کوئی احساس نہیں ہے اور نہ ہی اقتدار سے محرومی کا کوئی خوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں من مانی پر اتر آئی ہیں اور بھلائی کے کسی بھی معاملہ کو احسان کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ ووٹ ہمارا راج تمہارا کی صورتحال آخر کب تک چلے گی ۔ گزشتہ سال مارچ سے کورونا کے قہر نے ہزاروں کی جان لے لی ، لاکھوں کو متاثر کیا اور کروڑہا کی نیند اور چین حرام کردیا ۔ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام مرکز اور ریاستی حکومتوں نے عوام کے اعتماد اور بھروسہ کا خون کیا ہے۔ عوام کی زندگی کے تحفظ کے بجائے انہیں کورونا کے آگے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ۔ ایسے حالات میں جبکہ حکومتوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور کوئی شفافیت باقی نہیں رہی ، لہذا موجودہ حالات ملک میں قومی اور ریاستی سطح پر مخلوط حکومتوں کی تشکیل کے متقاضی ہیں۔ کورونا کے حالات سے نمٹنے کے بارے میں حکومتوں کی سرد مہری کے نتیجہ نے قبرستانوں اور شمشانوں پر ہاؤز فل کے بورڈ آویزاں کردیئے ہیں۔ کورونا کی پہلی لہر میں نریندر مودی حکومت نے کچھ ڈرامہ بازی کے ذریعہ اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی تھی لیکن دوسری لہر کے دوران حکومت کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہیں۔

رعایا کو کورونا کے ظالم پنجہ کا شکار ہونے کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ۔ مرکز اور ریاستی حکومتیں کورونا پر کنٹرول کے لاکھ دعوے کرلیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرکز اور ریاستوں کی حکومتوں نے اپنے ہاتھ اٹھالئے ہیں۔ ان حالات میں حکومت صرف برائے نام ہوچکی ہے ۔ لہذا عوام میں خود اعتمادی اور حوصلہ پیدا کرنے کیلئے تمام بڑی جماعتوں کی شمولیت کے ساتھ قومی حکومت (نیشنل گورنمنٹ) تشکیل دی جائے ۔ عارضی طور پر ہی سہی کم از کم ایک سال کے لئے قومی حکومت قائم رہے جو عوام کا بھروسہ حاصل کرنے نظم و نسق میں شفافیت پیدا کرے۔ حکومت کی قیادت اگر نریندر مودی کرتے ہیں تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہوگا بشرطیکہ تمام اہم سیاسی جماعتوں کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے ۔ اب تو اپوزیشن اور حکومت کی بعض حلیف جماعتوں کو حکومت پر اعتبار نہیں رہا ، لہذا تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے قومی حکومت کا قیام عوام کی صحت کے لئے ویکسین سے زیادہ اثردار ثابت ہوگا۔ تمام جماعتوں کے مشورہ سے کورونا پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تمام جماعتوں کی حکومت میں شمولیت کا اہم فائدہ یہ ہوگا کہ ہر پارٹی کے چاہنے والوں اور فالوورس کو یقین ہوگا کہ حکومت کچھ کام ضرور کر رہی ہے ۔ یہی بھروسہ اور حوصلہ کورونا سے نمٹنے میں دواؤں اور انجکشن سے زیادہ اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ یہ منفرد تجربہ کورونا سے بچاؤ میں قوت مدافعت میں اضافہ کا سبب بنے گا اور عین ممکن ہے کہ ہندوستان کو وباء سے نجات مل جائے۔ ویکسین ، انجکشن اور لاک ڈاؤن سے زیادہ اثر ہوسکتا ہے کیونکہ ہر شخص کو یہ یقین ہوگا کہ حکومت میں میری پارٹی اور میرا لیڈر موجود ہے تو ضرور ٹھوس قدم اٹھائے جائیں گے ۔ اسی جذبہ اور حوصلہ کو پروان چڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق کورونا سے بچاؤ کے لئے ہمت ، حوصلہ اور خود اعتمادی سے بہتر کوئی ویکسین اور انجکشن نہیں ہوسکتا۔

بعض ریاستوں میں چونکہ حکومتیں کورونا کے آگے بے بس دکھائی دے رہی ہیں ، لہذا وہاں بھی مخلوط حکومتوں کا تجربہ کیا جاسکتا ہے ۔ برسر اقتدار پارٹیوں کو یہ اندیشہ ہوگا کہ اپوزیشن دیگر امور میں مداخلت کرسکتا ہے ۔ لہذا مرکز کی قومی حکومت ہو یا ریاستوں کی مخلوط حکومتیں ان کا دائرہ کار صحت عامہ اور کورونا سے نمٹنے تک محدود رکھا جائے تاکہ حکومت کے دیگر معاملات اور اسکامس منظر عام پر آنے سے بچ جائیں۔ ملک میں فی الوقت موت کے کھیل کو ختم کرنا ہر کسی کی اولین ترجیح ہو ۔ دستور میں قومی حکومت کی گنجائش نہیں ہے لیکن مودی حکومت کے لئے صدر جمہوریہ سے ترمیمی آرڈیننس کی اجرائی کوئی مشکل کام نہیں ۔ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنے کے بجائے صدارتی آرڈیننس سے کام چلایا جاسکتا ہے ۔ عوام میں اعتماد کی بحالی کے لئے حکومت میں اپوزیشن کو شامل کرنا بہتر نتائج برآمدکرے گا۔ عوام خود محسوس کر رہے ہیں کہ اموات اور کیسیس کے بارے میں مرکز اور ریاستوں کے اعداد و شمار صحیح نہیں ہے اور حکومتیں حقیقی صورتحال کی پردہ پوشی کر رہی ہیں۔

مصیبت کی اس گھڑی میں جبکہ عوام کی زندگی داؤ پر ہے اور ہر شخص کے کسی قریبی کو کورونا نے اپنا نشانہ بنایا ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی نکتہ چینی کو خندہ پیشانی سے قبول کرے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے سوال کرنے والوں کو قانون کا سہارا لے کر زبان بندی کی کوشش کی جارہی ہے۔ نئی دہلی میں بعض افراد نے پوسٹر لگائے تھے جن پر تحریر تھا ’’مودی جی ہمارے بچوں کی ویکسین آپ نے باہر کیوں بھیج دی‘‘ پوسٹر کیا لگے حکومت کی عدم برداشت کی پالیسی آشکار ہوگئی۔ 23 ایف آئی آر درج کرتے ہوئے 25 افراد کو حراست میں لیا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوسٹر لگانے والوں کا قصور کیا تھا ، انہوں نے جو کچھ بھی حکومت سے سوال کیا وہ ان کا حق ہے۔ نریندر مودی نے خود بارہا یہ اعتراف کیا کہ عوام ان سے کارکردگی کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں کورونا کی ابتر صورتحال کے پیش نظر حکومت نے 18 سال سے زائد عمر کے ہر شخص کو ویکسین دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ملک میں اچانک ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی اور پہلی خوراک لینے والوں کیلئے ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ ملک میں عوام پریشان ہیں لیکن مودی حکومت کو دیگر ممالک کی فکر لاحق ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ پہلے گھر میں چراغ جلائیں بعد میں پڑوس کی فکر کریں۔ حکومت نے ایسے وقت ویکسین کی برآمد شروع کردی جبکہ ملک میں دوسری لہر کا قہر جاری تھا۔ جنوری سے مختلف ممالک کو ویکسین سربراہ کی جانے لگی اور فروری ، مارچ اور اپریل میں یہ سلسلہ جاری رہا۔ بتایا جاتا ہے کہ اپریل تک 9 سے زائد ممالک کو 6 کروڑ 70 لاکھ سے زائد ویکسین کی خوراک سربراہ کی گئی ہے۔ جن ممالک کو مودی نے ویکسین سربراہ کی ، ان میں کئی ایسے ہیں جن کا نام شائد ہندوستانی عوام نے پہلی بار سنا ہوگا۔ ایسے ممالک کو ویکسین دی گئی جہاں کورونا کی صورتحال قابو میں ہے۔ ہندوستان میں 130 کروڑ عوام کیلئے دو خوراک کے حساب سے ویکسین کا ذخیرہ ہونا چاہئے۔ اپنی ضرورت کی تکمیل کے بعد فاضل مقدار میں موجود خوراک کو دیگر ممالک سربراہ کیا جاسکتا ہے لیکن مودی جی کو ہندوستانیوں سے زیادہ بنگلہ دیش ، میانمار ، نیپال ، سری لنکا ، برازیل ، مراقش ، مالدیپ ، ساؤتھ افریقہ ، اینٹی گوا ، کانگو ، نائجیریا اور دیگر ممالک کے عوام سے ہمدردی ہے ۔ یہ دور اپنی طاقت یا ہمدردی کے اظہار کا نہیں ہے ۔ حکومت کو پہلے ہندوستانیوں کی زندگی بچانے کی فکر کرنی چاہئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اندرون ملک 4 کروڑ افراد کی ٹیکہ اندازی کی گئی لیکن بیرونی ممالک کو 6 کروڑ 70 لاکھ سے زائد ویکسین سربراہ کی گئی ۔ ویکسین کی قلت اور موثر ادویات کی کمی کے نتیجہ میں ایک ہزار سے زائد ڈاکٹرس ، 1200 بینکرس ، سنٹرل سرویسز کے 100 عہدیدار ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے 20 سے زائد پروفیسرس کے علاوہ سینکڑوں ہیلت ورکرس نے اپنی جان دے دی ہے لیکن مودی حکومت کو البانیہ اور زامبیا جیسے ممالک کے عوام سے ہمدردی ہے ۔ کیا عوام حکومت سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ کورونا وباء کی سائنسی وجوہات بھلے کچھ ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر اور کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کے بعد سے ملک میں مسلسل پریشانی اور آفات کا سامنا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سجدہ گاہ کو بت پرستی کے مرکز میں تبدیل کرنے اور کشمیری عوام سے ناانصافی پر خدا کا غضب نازل ہوا ہے ۔ منظر بھوپالی نے کچھ یوں تبصرہ کیا ؎
اب سانس بھی لیتے ہوئے ڈرنے لگا انساں
اس بار ہواؤں میں بڑا زہر گھلا ہے