اس کاغذی لباس کو کب تک بچاؤ گے

   

سید جلیل ازہر
آج ملک میں این آر سی اور شہریت قانون بل کے خلاف احتجاج ہورہا ہے ، اس کو دیکھ کر ملک اور ریاست بلکہ اضلاع میں بھی عجیب و غریب صورتحال دیکھی جارہی ہے ۔ عوام کچھ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ آخر ملک میں ہوکیا رہا ہے ۔ ہر شخص ایک دوسرے سے این آر سی سے متعلق ہی گفتگو کر رہا ہے ۔ احتجاج نرمل میں بھی ہوا۔ سارے تلنگانہ میں بھی بڑے پیمانہ پر بلا لحاظ مذہب و ملت عوام نے اس قانون کی شدت سے مخالفت کی ہے اور مخالفت جاری بھی رہے۔ اس تناطر میں راقم الحروف نے عالمی شہرت یافتہ شاعر عمران پرتاب گڑھی بڑے پیمانہ پر دہلی ، بھوپال اور کئی علاقوں میں احتجاج میں شامل ہورہے ہیں، ان سے ربط پیدا کیا گیا تو وہ روزنامہ ’’سیاست‘’ کے لئے خصوصی انٹرویو سید جلیل ازہر کو فون پر دیا جس کی تفصیلات قارئین کے لئے پیش ہیں۔ مسٹر عمران نے بتایا کہ مرکز منصوبہ بند طریقہ سے این آر سی اور شہریت قانون کے ذ ریعہ سماج کو مذاہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے ناپاک عزائم کے ساتھ اس بل کو لائی ہے جبکہ ملک میں احتجاج کے ذریعہ ان کے عزائم کو ناکام بناتے ہوئے ہر مذہب کے لوگ سڑکوں پر اس بل کی مخالفت کیلئے اتر آئے تو اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کیلئے پھر ایک جھوٹ این پی آر کا لے کر آگئے جس کا راستہ این آر سی کی سمت جاتا ہے ۔ مرکزی حکومت بالخصوص وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی شاطرانہ چال سے سارا ملک واقف ہوگیا ہے ، ملک کی معصوم عوام کو اب کب تک بے وقوف بناؤ گے ، امیت شاہ اور نریندر مودی سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آج ملک کے جلیل القدر عہدہ پر تمہیں عوام نے منتخب کیا اور تم انہیں سے ان کی شہریت کے دستاویزات طلب کر رہے ہو۔ آخر اتنے اہم عہدہ پر فائز ہوکر جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہو تو معصوم عوام اب تمہیں کیا سمجھیں گی ۔ دو دن قبل ہی سینہ ٹھوک کر رام لیلا میدان پر جلسہ عام سے وزیراعظم کہتے ہیں کہ کہاں ہے این آر سی کہاں ہے، Detention Centre ، حد ہوگئی جھوٹ کی ، آج سارا ملک یو ٹیوب پر دیکھ رہا ہے کہ آسام کے علاقہ میں Dentention سنٹر کی تعمیر آخری مراحل میں ہے اور وزیراعظم کا بیان افسوس کی بات ہے ۔ عمران نے یہ شعر کہا ؎
اس کاغذی لباس کو کب تک بچاؤ گے
پانی برس گیا تو کسے منہ دکھاؤ گے
مسٹر عمران نے کہا کہ مودی اور امیت شاہ کو یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ سدا موسم بہاروں کے نہیں رہتے سبھی پتے بکھرتے ہیں ہوا جب رقص کرتی ہے ۔ انہوں نے ملک کے عوام سے پرزور اپیل کی ہے کہ اب نیوز روم میں بیٹھنے یا گھروں میں بٹھاکر حالات کو ٹی وی پر دیکھنے کا وقت نہیں ہے ، اپنی بلندی سے نیچے اتر کر سڑکوں پر آنا ہوگا ، میں لگاتار اس احتجاج میں عوام کے درمیان ہوں کیونکہ اب بات واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہے کہ ہمیں دوسری آزادی کی لڑائی لڑنا ہے اور جمہوری انداز میں حکومت کو مجبور کرنا ہوگا کیونکہ ملک کے کئی حصوں میں کچھ لوگ احتجاجی ریالیوں میں داخل ہوتے ہوئے پرامن ریالی کو پر تشدد بنانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے افراد پر بھی خصوصی نظر رکھیں اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اچھے دنوں کے لئے برے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے کیونکہ منزلیں کسی کے گھر جاکر حاضری نہیں دیتی، راستوں پر چلنے سے ہی راستے نکلتے ہیں۔ کوئی امیت شاہ یا نریندر مودی کیسے طئے کرسکتے ہیں کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں یا نہیں ؟ ہم اپنا سینہ چیر کر دکھائیں گے کہ اندر ترنگا رکھا ہوا ہے ۔ ملک کی عوام کو نوٹ بندی کے ذریعہ جس انداز سے بے وقوف بناکر قطاروں میں کھڑا کردیا گیا تھا اور وزیراعظم بڑی معصومیت سے جلسوں میں یہ کہہ رہے تھے کہ مجھے صرف پچاس دن کا وقت دو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا حکومت کالا دھن واپس لانے میں کامیاب ہوئی ، کیا بیروزگاری دور ہوئی ۔ بیٹی بچاؤ کا نعرہ کیا ہوا ، آج شہریت قانون بل کی مخالفت میں جامعہ کی طالبات پرامن احتجاج کر رہی ہیں تو ان پر لاٹھیاں برسائی گئی ہیں، میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کے حالات خراب ہونے کے بعد ایک زخمی لڑکے کی مزاج پرسی کے لئے میں ایمس ہاسپٹل جارہا تھا۔ فرینڈس کالونی کے قریب احتجاجیوں کے بڑے جلوس کو دیکھتے ہوئے میں وہاں ٹھہر گیا، اس قدر غم و غصہ میں نکالی گئی ریالی کے نوجوانوں نے اس موقع پر تین ایمبولنس گا ڑیوں کو راستہ دیا یہ ہے انسانیت کا سب سے بڑا ثبوت۔ مودی جی اب بھی وقت ہے ، آپ ضد چھوڑیئے اور حالات کا جائزہ لیجئے کیونکہ پولیس کی بربریت اور لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال دیکھتے ہوئے یہ لگ رہا ہے کہ یہ صرف اور صرف انتقامی سیاست چل رہی ہے ۔ حکومت کو یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جھوٹے انسان کی اونچی آواز سچے انسان کو خاموش کرادیتی ہے ۔ لاٹھیوں کے زور پر مگر جب سچے انسان کی خاموشی بولنے پر آتی ہے تو جھوٹے انسان کی بنیاد ہلا دیتی ہے ۔ مودی جی نہتی لڑکیوں پر برس رہی لاٹھیوں کے منظر کو دیکھتے ہوئے آپ کو نہیں لگتا کہ بیٹی بچاؤ ملک میں یہ کیا ہورہا ہے کیونکہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں۔ کیا تعلیم سے حکومت کی دوری تعلیم یافتہ نسل کے مستقبل کو ابھی سے برداشت نہیں کر پارہی ہے ۔ عمران نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں امیت شاہ جی اور مودی جی سے ؎
رشتوں کی یہ نازک ڈوری توڑی تھوڑی جاتی ہے
اپنی آنکھیں دکھتی ہوں تو پھوڑی تھوڑی جاتی ہے
جن بچوں پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں، یہ بچے آپ کی آنکھیں ہیں، اس ملک کا آنے والا مستقبل ہے ، ارے افسوس کہ جس ووٹ سے تم حاکم بنے ہو، آج انہیں سے شہریت کے دستاویز پوچھ رہے ہو؟ مسٹر عمران نے کہا کہ حکومت کوئی نہ کوئی طریقہ سے عوام کو ڈرانے کی کوشش بھی کر رہی ہے جبکہ میں لوگوں کے اندر سے ڈر نکلتا دیکھ رہا ہوں ایک جنگ ملک کی آزادی کیلئے ہم نے انگریزوں سے لڑی تھی ، اب یہ جنگ بلکہ ہمارا مقصد تانا شاہی سے آزادی کے لئے سب کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہے ۔ اگر مجھ سے کوئی شہریت کے دستاویز مانگتا ہے تو میں جیل جانا پسند کروں گا لیکن ہرگز اس سرکار کو اپنے دستاویزات نہیں بتاؤں گا ۔ آخر میں عمران نے یہ شعر کہا ؎
تونے نفرت کا جو بازار سجایا ہوا ہے
تو یہ کہتا ہے مسلمان پرایا ہوا ہے
آجا دل چیر کے دکھلاؤں وطن کا نقشہ
میرا بھارت میری سانسوں میں سمایا ہوا ہے