اعظم خان کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ سراسر زیادتی ہے

   

ظفر آغا
میں ذاتی طور پر اعظم خان کا مداح نہیں اور نہ ہی مجھ کو ان کی جذباتی مسلم سیاست سے کوئی بڑی دلچسپی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جذباتی مسلم سیاست سے مسلم اقلیت کو نقصان ہی ہوتا ہے، فائدہ نہیں۔ میری رائے ہے کہ اس قسم کی سیاست سے ہندو رد عمل پیدا ہوتا ہے جس کو بی جے پی بھناتی ہے۔ لیکن سنہ 1980 کی دہائی میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد مسلم سیاست میں ایسے کئی سیاسی ستارے ابھرے جو مسلم جذبات کی سیاست کر چمکے اور چھا گئے۔ اعظم خان بھی انہی میں ایک ہیں۔ وہ اپنی چرب زبانی اور اپنی جذباتی تقریروں کے لیے مشہور ہیں۔ وہ کھل کر مسلم ایشوز و مسائل اٹھاتے ہیں۔ سب واقف ہیں کہ انھوں نے سماجوادی پارٹی کے آنجہانی قائد ملائم سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی کے عروج میں نمایاں رول ادا کیا۔ وہ سماجوادی پارٹی کے بانیوں میں سے ہیں اور مسلم ووٹ بینک کو ملائم سنگھ کے ساتھ جوڑنے میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔
الغرض، کسی کو اعظم خان پسند ہوں یا نہ ہوں، اعظم خان اتر پردیش کی سیاست کا ایک اہم ستون ہیں جنھوں نے بی جے پی مخالف ریاستی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج وہی اعظم خان در بدر ہیں۔ کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو کبھی بدعنوانی کے الزام میں الیکشن کمیشن ان کی اسمبلی رکنیت رد کرتی ہے، کبھی ای ڈی کے چھاپے، تو کبھی ان کے بیٹے کے خلاف وارنٹ۔ حد تو یہ ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے اعظم خان کا نام ووٹر لسٹ تک سے بے دخل کر دیا گیا۔ آخر یہ کوئی بات ہے۔ اعظم خان کو ہندوستان کی ہر وہ سزا دی جا رہی ہے جو کسی کالے چور کو دی جا سکتی ہے۔
آخر کیوں! سیاسی حلقوں میں سب یہ سمجھتے ہیں کہ اعظم خان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلم سیاست کرتے ہیں۔ انھوں نے اتر پردیش میں بی جے پی مخالف سیاست کی۔ وہاں کے مسلمانوں کو سماجوادی پارٹی سے جوڑا۔ یہی تو ہے اعظم خان کا گناہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی اور نے اعظم خان جیسی فرقہ پرست سیاست نہیں کی! اگر اس نکتہ نگاہ سے بی جے پی کے لیڈران کا جائزہ لیا جائے تو شاید ہی کسی کا دامن پاک و صاف نکلے۔ میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، لیکن سب واقف ہیں کہ کوئی بابری مسجد گروا کر تو کوئی دنگوں کے الزام کے ساتھ بی جے پی اور ملک کا بڑا قائد بن گیا۔ اب تو سب سمجھتے ہی ہیں کہ بی جے پی مسلم منافرت کی سیاست کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کھلی ہندو فرقہ پرستی کی سیاست ہے۔ مگر ایسی سیاست کرنے والے کے خلاف ملک کی کوئی ایجنسی یا عدالت کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتی ہے۔ بلکہ ایسے لیڈران بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔
مگر ایسا صرف مسلم قائدین کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا ہے۔ ارے اب اس ملک میں شاید ہی کوئی بی جے پی مخالف لیڈر بچا ہو جس کو حکومت کی کسی نہ کسی ایجنسی نے پریشان نہ کیا ہو۔ کانگریس کے سابق صدر سونیا گاندھی کو ای ڈی نے بلا کر گھنٹوں پوچھ تاچھ کی۔ راہل گاندھی بھی ای ڈی کا شکار ہوئے۔ ابھی پچھلے ہفتے جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو ای ڈی والوں نے 9 گھنٹوں تک سوال جواب کر تنگ کیا۔ یہ جمہوری سیاست کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اگر جمہوریت میں مخالفین کی آواز گھونٹ دی جائے گی تو پھر جمہوریت کس کام کی۔ یہ تو ڈکٹیٹروں کا طرز سیاست ہے کہ جو اپنے مخالفین کو قید و بند کی سزا دیتے ہیں۔ بی جے پی ملک کی اس وقت سب سے بڑی پارٹی ہے۔ ملک پر اس کا راج ہے۔ یہ وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں جس طرح کی غیر جمہوری سیاست ہو رہی ہے اس پر روک لگائیں۔ وزیر اعظم کا شمار اب دنیا کے ایک قدآور لیڈروں میں ہوتا ہے۔ خود ان کی امیج کے لیے ایسی سیاست نقصان دہ ہے۔ ملک میں جمہوری قدروں کے مضبوط ہونے سے خود ان کا قد بلند ہوگا۔ وہ اعظم خان ہوں یا ہیمنت سورین، بی جے پی مخالفین کے خلاف بدلے کی سیاست بند ہونی چاہیے۔
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی واپسی!
جس بات کا خدشہ تھا آخر وہ ہو ہی گیا۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے یہ اعلان کر دیا کہ وہ ملک کے اگلے صدارتی چناؤ کے امیدوار ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکی سیاست کے وہ واحد فرد ہیں جن کے اوپر یہ الزام ہے کہ انھوں نے پچھلا چناؤ ہارنے کے بعد غیر جمہوری طور سے اپنے مخالف جو بائیڈن کو صدر بننے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں، ڈونالڈ ٹرمپ وہ سیاستداں ہیں جو کھلے بندوں سفید نسل پرستی کو ہوا دیتے ہیں اور اسی ایجنڈے پر وہ سیاست کرتے ہیں۔ ٹرمپ غیر گورے باہر سے آئے امریکی شہریوں کو گوروں کے دشمن کی امیج دے کر اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔ یہ بالکل وہی سیاست ہے جو ہندوستان میں بی جے پی ’مسلم منافرت‘ سیاست کے بنیاد پر کرتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکہ ایک بار پھر نسل پرستی کی سیاست کا شکار ہوگا۔ کیونکہ امریکہ دنیا کا سب سے اہم ملک ہے، چنانچہ اس کا اثر دنیا کی سیاست پر بھی پڑے گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے یورپ، امریکہ اور ایشیا میں ’شناخت کی سیاست‘ کا زور ہے۔ ابھی چند ہفتوں قبل اٹلی میں جارجیا میلونی میں اسی سیاست کی بنیاد پر چناؤ جیت کر اقتدار میں آئی ہیں۔ ان کی برادرس آف اٹلی نام کی پارٹی کھلے طور پر اٹلی کے باہر سے آئے غیر گوروں کی مخالفت کرتی ہے اور ٹرمپ کی طرح ایسے افراد کے خلاف منافرت پھیلا کر اپنی سیاست چمکاتی ہے۔ ایک اٹلی کیا، دنیا بھر میں کم از کم آدھے درجن ممالک میں اس وقت ایسے ہی حاکموں کا زور ہے جو منافرت کی سیاست سے کام چلا ہرے ہیں۔ ٹرمپ کا امریکی صدارت کے لیے اعلان کرنا اس قسم کی سیاست کو اور ہوا دے گا جو دنیا بھر کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔