افغانستان میں ایک خطرناک کھیل کی تیاری

   

حیدر عباس
یہ ضروری نہیں کہ ہر خبر اچھی ہو یا پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر خبر بری ہو۔ دنیا کے مختلف مقامات سے اچھی اور بری خبریں منظرعام پر آتی ہی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر اب افغانستان جیسے گڑبڑ زدہ ملک سے مختلف قسم کی خبریں آرہی ہیں جو کچھ لوگوں کچھ حکومتوں کیلئے اچھی خبریں ہیں اور بعض کیلئے بری خبریں ہیں۔ افغانستان سے جو تازہ خبریں منظرعام پر آرہی ہیں، ان کے مطابق امریکی فورسیس افغانستان سے اپنا بوریا بسر گول کررہی ہیں اور اس ملک سے ان کا تخلیہ تقریباً یقینی ہے۔ ویسے بھی امریکی فورسیس کے بارے میں یہی کہا جارہا تھا کہ وہ 11 ستمبر 2021ء تک افغانستان سے مکمل طور پر تخلیہ کردیں گی لیکن جس تیزی سے امریکی فورسیس افغانستان میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہورہی ہیں اس کی رفتار کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہیکہ 11 ستمبر 2021ء سے قبل ہی امریکی فورسیس افغانستان سے نکل جائیں گی۔ ماہ مئی کے پچھلے 28 دنوں میں نیویارک ٹائمس کے مطابق چار صوبوں نعمان ،بغلان، وارداک اور غزنوی میں کم از کم 26 پوسٹوں اور اڈے افغان طالبان کے حوالے کئے جس کے جواب میں کم از کم 120 سپاہیوں اور پولیس اہلکاروں کو محفوظ راہ فراہم کی گئی تاکہ وہ وہاں سے صحیح سلامتی کے ساتھ نکل جائیں۔ یہ کام افغان طالبان نے ہتھیار و آلات حربی کی حوالگی کی شرط پر انجام دیا ہے۔
افغان طالبان ایسا لگتا ہیکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ امریکی فورسیس کے مکمل تخلیہ کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے کیونکہ کئی واقعات میں یہ دیکھا گیا کہ افغان طالبان نے خودسپردگی کرنے والے سپاہیوں کو نہ صرف تقریباً 130 ڈالرس کی رقم دی ہے بلکہ انہیں عام شہریوں کے ملبوسات فراہم کرتے ہوئے بناء کوئی گزند پہنچائے ان کے گھروں کو روانہ کیا تاہم افغان طالبان ایسا کرنے سے قبل خودسپردگی کرنے والے سپاہیوں کی فلمبندی کرتے ہیں اور یہ وعدہ لیتے ہیں کہ وہ دوبارہ سیکوریٹی فورسیس میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے۔ ان لوگوں کے فون نمبرات اور ارکان خاندان کے نام لاگ کرتے ہیں ساتھ ہی اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ اگر وہ (خودسپردگی اختیار کرنے والے) دوبارہ فوج میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو پھر انہیں قتل کردیا جائے گا۔
نیویارک ٹائمس کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ امریکی فوجی اڈے انتہائی منظم انداز میں خالی کئے جارہے ہیں۔ اہم بات یہ ہیکہ یہ اڈے اور چیک پوسٹس بہتر راڈار کمیونکیشن سسٹم سے لیس ہیں ، خودسپردگی کے بعد یہ تمام عصری آلات اور ہتھیار وغیرہ چھوڑ جارہے ہیں۔

ایسا لگتا ہیکہ امریکہ اس قسم کی خوفناک جلدی میں ہیکہ وہ جاپان سے اپنا واحد ایرکرافٹ کیریئر رونالڈ ریکن طلب کررہا ہے۔ تاکہ امریکی فورسیس کے افغانستان سے تخلیہ میں مدد کرسکے۔ یہ بات وال اسٹریٹ جنرل کی 26 مئی کو شائع رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حالیہ برسوں کے دوران ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ امریکہ بہت زیادہ عجلت میں دکھائی دیتا ہے حالانکہ ایشیائی بحرالکال علاقہ میں ہمیشہ امریکی فورسیس کی موجودگی دیکھی ہے۔
آپ کو بتادیں کہ رونالڈ ریگن ایرکرافٹ کیریئر جنوبی بحرہ چین میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ چین کا مقابلہ کیا جاسکے اور ہوسکتا ہے کہ یہی بحری راستہ امریکی فورس کی بحفاظت واپسی کیلئے اپنایا جائے۔ امریکہ افغانستان میں جو کچھ بھی کررہا ہے حقیقت یہ ہیکہ اس کا آئیڈیا نقطہ عروج پر پہنچ گیا ہے کیونکہ اس کا ماننا ہیکہ امریکی فورسیس کے تخلیہ کے بعد افغان طالبان اور اشرف غنی کی وفادار فورسیس ایک دوسرے کا قتل شروع کریں گی لیکن اس کے متضاد امریکہ کی موجودگی میں ہی افغان طالبان خود کو نہ صرف مستحکم کررہے ہیں بلکہ پوری طرح کنٹرول حاصل کرتے جارہے ہیں۔ آریانہ نیوز کے مطابق صدر اشرف غنی کی نیشنل ڈائرکٹوریٹ آف سیکوریٹی اور بلوچستان نیشنل آرمی کی مصیبتوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب 27 مئی کو قندھار میں بلوچستان لبریشن موومنٹ کے اہم کمانڈروں میں شامل میر عبدالنبی بنگل زئی کا قتل ہوا۔ 24 مئی کو ہی قندھار میں اسلم بلوچ کو ایک خودکش دھماکہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اب کابل میں خوف و دہشت کا یہ عالم ہیکہ خود صدر اشرف غنی نے اپنی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہونے کا برملا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے 30 مئی کو کابل یونیورسٹی میں خطاب کے دوران اپنی زندگی کو خطرہ لاحق ہونے کی بات کی تھی۔ اشرف غنی نے اپنے اس خطاب کے دوران افغان طالبان کو پیشکش صلح کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے کچھ یوں کہا :طالبان مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں ان سے بغلگیر ہونے کا خواہاں ہوں۔ اشرف غنی نے ساتھ ہی طالبان کو یہ بھی انتباہ دیا تھا کہ وہ افغان فوج کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کرسکتے اور افغان فوجیوں کو اپنے میں شامل نہیں کرسکتے۔ ان کے خیال میں طالبان کو بیرونی طاقتوں (پاکستان) سے تعلقات ختم کرلینے چاہئے۔اشرف غنی کے مشیر قومی سلامتی حمداللہ محب نے یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا تھا کہ پاکستان عصمت فروشی کا اڈہ ہے۔ حمداللہ نلگہار صوبہ میں خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے پاکستان پر طالبان کی حمایت کا بھی الزام عائد کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے حمداللہ محب سے کسی بھی قسم کا سرکاری رابطہ منقطع کردیا۔

24 اپریل تا 4 مئی ترکی میں افغان امن کانفرنس کی میزبانی کی جانے والی تھی لیکن حمداللہ کے بیان کے بعد پاکستان کی برہمی کو دیکھتے ہوئے وہ کانفرنس منسوخ کردی گئی۔ حالانکہ پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ وہ بھی افغانستان میں بات چیت کے ذریعہ ایک سیاسی حل تلاش کرنے کے معاملہ میں سنجیدہ ہے لیکن اب یہی دکھائی دیتا کہ بات چیت کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ بعض رپورٹس میں یہ بھی آیا ہیکہ امریکہ نے ایک اور حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیا اور اس کے تحت وہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ یا شمس فضائی اڈہ میں اپنا فوجی اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس بارے میں افغان طالبان نے پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہدیا ہیکہ وہ ایسی کوئی تاریخی غلطی کا ارتکاب نہ کرے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو طالبان اس کے عزائم کوناکام بنادیں گے۔ اس کا انکشاف 26 مئی کو اکنامک ٹائمس نے کہا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں امریکی فوجی اڈہ کا سوال ہے اس کے ذریعہ پنٹگان افغان طالبان کو مستقبل میں محدود رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف بلوچستان فرنٹیرکارپس ٹروپس پاکستان اور ایف سی کی گاڑیوں پر دو حملے کئے گئے۔ یکم ؍ جون کو کئے گئے ان حملوں میں چار ہلاکتیں ہوئیں۔
دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہیکہ امریکی فورسیس آئندہ چند دنوں میں بگرام فوجی اڈہ کا تخلیہ کرنے والے ہیں۔ یہ سب سے بڑا فوجی و فضائی اڈہ ہے اور کئی کیلو میٹر پر محیط ہے اور ایک بڑے شہر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ بگرام فوجی اڈہ کا جو ایرپورٹ ہے اس کا رن وے کئی کیلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ رن وے ساڑھے تین کیلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے اور امریکہ نے اس پر کئی ارب ڈالرس کا سرمایہ مشغول کیا ہے اور اس مقام کے اکثر و بیشتر ڈونالڈ ٹرمپ اور بارک اوباما جسے امریکی صدور نے دورے کئے۔ امریکی فورسیس بلگرام فوجی اڈہ کو اشرف غنی کے حوالے کرجائیں گے اور طالبان کا اس فوجی اڈہ کو اپنے کنٹرول میں کرنا آسان نہیں ہوگا ویسے بھی اقوام متحدہ نے انتباہ دیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ ہنوز قربت رکھتے ہیں۔ امریکی فورسیس کے تخلیہ کے منصوبوں پر پاکستان بھی تشویش میں مبتلا ہے کیوکنہ اشرف غنی کی وفادار فورسس اور افغان طالبان کے درمیان لڑائیوں سے زبردست تباہی ہوسکتی ہے اور افغان شہریوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان بلکہ علاقہ پر بھی اس کے بھیانک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔