افغانستان میں قیامِ امن اور سیاسی تصفیے کیلئے ماسکو میں کانفرنس کا آغاز

,

   

اسلام آباد ۔افغانستان میں قیامِ امن اور سیاسی تصفیے کیلئے کی جانے والی عالمی کوششوں کے تحت روس کی میزبانی میں امن کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس میں افغان حکومت، طالبان، امریکہ، چین، قطر اور پاکستان کے مندوبین شریک ہوئے۔روسی وزیرِ خارجہ سرگئے لاوروف نے اپنے افتتاحی خطاب کے ذریعے کانفرنس کا باقاعدہ آغاز کیا۔لاوروف کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد دوحہ مذاکرات میںآنے والے تعطل کو دْور کر کے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کرانا ہے تاکہ امن عمل آگے بڑھ سکے۔کانفرنس میں شرکت کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے وفود بھی ماسکو پہنچے تھے۔افغان حکومت کے وفد میں اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی، اعلی مذاکرات کار معصوم ستنکزئی، مارشل عبدالرشید دوستم اور دیگر کئی افغان سیاسی رہنما شامل ہیں۔طالبان کا 10 رکنی وفد، ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں اس کانفرنس میں شر یک ہے۔ذرائع کے مطابق افغان حکومتی نمائندے افغانستان میں مستقل جنگ بندی معاہدے اور پْرتشدد کارروایئوں کے خاتمے پر زور دیں گے جب کہ طالبان کا وفد دوحہ معاہدے کے تحت امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے مطالبے پر اصرار کرے گا۔یاد رہے کہ یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی جب طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت، دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات سست روی کا شکار ہیں اور افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔کانفرنس سے قبل ایک ٹوئٹ کے ذریعے عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ اس کانفرنس میں ان راستوں اور طریقہ کار کو زیرِ بحث لایا جائے گا جس سے ایک خود مختار پر امن اور خود کفیل افغانستان کی راہ ہموار ہو جہاں دہشت گردی اور منشیات سے متعلق جرائم نہ ہوں۔اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ترجمان ڈاکٹر مجیب رحمان رحیمی کا کہنا ہے کہ ماسکو میں امریکہ، چین اور روس کے درمیان ایک اہم اجلاس بھی ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان اور قطر کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سہ فریقی کانفرنس کا بنیادی مقصد افغان تصفیے کے لیے راہیں تلاش کرنا ہیں۔ماسکو کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق اور امریکہ کے نمائند ے زلمے خلیل زاد ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ مزید طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماؤں کو اقوامِ متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے میں مدد کرے تو طالبان بھی یکم مئی کو امریکی اور اتحادی فوج کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع پر رضا مند ہو سکتے ہیں۔گزشتہ سال دوحہ میں امریکہ اور طالبان اور بعد میں بین الافغان امن مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد افغان عوام کی اْمیدیں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں۔