اقتدار کیلئے چور دروازہ کا استعمال

   

راستی سے اگر نہ کام چلے
چور دروازہ استعمال کرو
اقتدار کیلئے چور دروازہ کا استعمال
بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں کسی اور اپوزیشن جماعت کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ملک میں ایک ہی جماعت بلکہ فرد واحد کی حکومت قائم ہوجائے اور دوسروں کو آواز بلند کرنے کا کوئی موقع نہ مل پائے ۔ یہ مطلق العنانی اور تانا شاہی ہے جسے مودی اور امیت شاہ کی جوڑی رائج کرنا چاہتی ہے ۔ اسی کوشش کے طور پر شائد کرناٹک میں بی جے پی نے اقتدار ہتھیانے کیلئے چور دروازے کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن لمحہ آخر میں اس کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ کانگریس کے ارکان اسمبلی کو لالچ دیتے ہوئے یا پھر کسی اور طریقے سے اپنی صفوں میں شامل کرنے کیلئے اس نے ہر ممکن کوشش کی اور اس کے اپنے ارکان اسمبلی کو دہلی منتقل کردیا گیا تھا ۔ کانگریس کے کچھ ارکان کو بھی ممبئی میں بی جے پی کی میزبانی میں مقیم رکھا گیا تھا لیکن یہ ارکان اسمبلی لمحہ آخر میں کانگریس کے سینئر قائدین کی کوششوں کے نتیجہ میں بی جے پی کے جھانسے میں پوری طرح پھنسنے سے بچ گئے اور وہ ایسا لگتا ہے کہ دوبارہ کانگریس کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں ۔ کرناٹک میں گذشتہ تین چار دن کے دوران جو کچھ بھی ڈرامہ بازیاں ہوئی ہیں اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ بی جے پی اگر عوامی تائید سے نہ ہوسکے تو توڑ جوڑ کے ذریعہ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں اپنا اقتدار جمانا چاہتی ہے ۔ شمالی ہند میں بی جے پی کی مقبولیت میں انحطاط پیدا ہوتا جا رہا ہے اور اس کی مخالفت بڑھ رہی ہے ۔ ایسے میں وہ جنوبی ہند میں اپنے پاوں جمانا چاہتی ہے ۔ جنوب میں اب تک بی جے پی کو عوام کی خاطر خواہ تائید نہیں مل سکی ہے اور صرف کرناٹک ایک ایسی ریاست ہے جہاں اسے اقتدار ملنے کی امید دکھائی دی تھی لیکن وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی ۔ جب عوام کی فیصلہ کن تائید نہیں مل سکی تو بی جے پی نے توڑ جوڑ کی سیاست شروع کردی اور کانگریس ۔ جے ڈی ایس ارکان کو خریدنے کی مہم ’’ آپریشن لوٹس ‘‘ شروع کی تھی لیکن تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود بی جے پی کو اس میں بری طرح سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑ ا ہے اور اس کا آپریشن کامیاب نہیں ہوسکا ۔
بی جے پی کی ان کوششوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ جمہوری عمل میں اس کو کوئی یقین نہیں ہے ۔ وہ جہاں سماج میں مذہبی ‘ ثقافتی اور روایتی طور پر رواداری برتنے کو تیار نہیں ہے وہیں وہ سیاسی اختلاف رائے کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں عوام وقفہ وقفہ سے سیاسی جماعتوں کو اقتدار سونپتے ہیں اور پھر انہیں بیدخل بھی کردیتے ہیں۔ ملک میں تمام تر سیاسی جماعتوں نے عوام کی اس رائے کا پورا احترام کیا ہے ۔ اقتدار کی پرسکون انداز میں منتقلی عمل میں آتی ہے اور پھر دوبارہ واپسی بھی ہوتی ہے ۔ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں اور خود مرکز میں ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے لیکن جس وقت سے مودی برسر اقتدار آئے ہیں ایسا لتا ہے کہ وہ سوائے بی جے پی کے کسی اور سیاسی جماعت کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے چند دن میں ہی کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا گیا تھا ۔ یہ جمہوری اصولوں اور اقدار کے مغائر ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ جمہوری عمل میں یقین رکھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ایک منظم انداز میں جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ۔ ایک رائے کو اور ایک نظریہ کو مسلط کیا جا رہا ہے اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں ان کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ کرناٹک میں جو کچھ ہوا وہ پہلی بار ہے ۔ گوا میں جہاں بی جے پی واحد بڑی جماعت نہیں تھی وہاں بھی توڑ جوڑ سے اقتدار حاصل کرلیا گیا ۔ گذشتہ سال اترکھنڈ میں بھی انحراف کو ہوا دیتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن عدالتوں نے اس کوشش کو ناکام کردیا تھا ۔ کرناٹک میں اس طرح کی کوشش میں شدت پیدا کردی گئی ہے ۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی خود حلیف جماعتوں کو حاشیہ پر کرنے کے منصوبے تیار ہو رہے ہیں اور کسی بھی قیمت پر ملک میں ایک جماعتی نظام رائج کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ چور دروازے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ نہ صرف ملک کے جمہوری نظام کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے بلکہ ملک کے عوام کی رائے کو پامال کرنا بھی ہے ۔