اقتدار کی جدوجہد بی جے پی کا اخلاقی زوال

   

راج دیپ سردیسائی
ہندوستانی سیاست میں آپ کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کہاں بیٹھے ہیں اس مسلمہ حقیقت کی تازہ ترین مثال خوش اخلاق گورنر راجستھان کلراج مشرا نے اپنے طرز عمل سے پیش کی ہے۔ یہ وہی کلراج مشرا ہیں جو 1998ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اس دھرنا کا حصہ تھا جو اترپردیش کی کلیان سنگھ حکومت کو اس وقت کے گورنر رومیش بھنڈاری کی جانب سے برطرف کئے جانے کے خلاف منظم کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ کانگریس ارکان اسمبلی ہیں جنہوں نے جئے پور راج بھون کے وسیع و عریض سبزہ زار پر گورنر کلراج مشرا کے خلاف بیٹھے رہو احتجاج منظم کیا۔ کلراج مشرا نے اسمبلی کا اجلاس فوری طلب کرنے سے انکار کردیا۔ چیف منسٹر راجستھان اشوک گہلوٹ نے اسمبلی اجلاس فوری طلب کرنے کا مطالب کیا تھا۔

گورنر کلراج مشرا اب کہتے ہیں کہ ایوان اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے 21 دن کی پیشگی نوٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اکیس دن ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے لیے کافی ہوجائیں گے۔ کلراج مشرا کی یہ وفاداری مرکز سے لگتی ہے دستور سے نہیں۔

کلراج مشرا حالیہ عرصہ میں تنازعہ پیدا کرنے یا اس کا باعث بننے والے واحد گورنر نہیں ہیں، سال 2017ء میں گوا میں میردولا سنہا اور منی پور میں نجمہ ہبت اللہ نے بڑی عجلت سے بی جے پی کی زیر قیادت حکومتوں کو حلف دلایا حالانکہ بی جے پی ان ریاستوں کے ایوانوں میں واحد بڑی جماعت نہیں تھی۔ سال 2018ء میں کرناٹک میں وجوبھائی والا نے جو گجرات بی جے پی کے سابق صدر ہیں بی ایس یدی یورپا کو تشکیل حکومت کی دعوت دی جبکہ بی ایس یدی یورپا کے پاس تشکیل حکومت کے لیے درکار ارکان اسمبلی کی تائید نہیں تھی۔ چنانچہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے نتیجے میں اندرون 48 گھنٹے یدی یورپا کی حکومت گرگئی۔
سال 2019ء کے دوران مہاراشٹرا میں بی ایس کوشیاری نے دیویندر فرنویس کو عہدہ چیف منسٹری کا حلف دلایا لیکن انہیں صرف اندرون ہفتہ استعفیٰ دینا پڑا۔ ان تمام کو ان عہدوں (گورنرکے عہدوں) پر اس لیے فائز کیا تھا کیوں کہ ان کی عمریں 75 سال سے تجاوز کر گئیں تھیں ان کی بزرگی یا ضعیف العمری کو دیکھتے ہوئے بی جے پی میں ان رہنمائوں کو مارگ درشک سیاستداں کہا جاتا ہے۔
ان سیاستدانوں کے بحیثیت گورنر یا دستوری اتھارٹی کی حیثیت سے جو کچھ جانبداری اقدامات کئے گئے یا کئے جارہے ہیں ان کی مدافعت یہ دعوے کرتے ہوئے کی جارہی ہے کہ یہ تمام لوگ کانگریس کی قائم کردہ قدیم روایات کو اپنا رہے ہیں اس طرح کے دعوے اس بات کا ثبوت ہیں کہ مودی، امیت شاہ دور میں ہر لڑائی کے لیے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے اور موجودہ حالات میں گورنروں کے اقدامات اور ان کی مدافعت اس امر کا ثبوت ہے کہ اب بی جے پی کسی قدر مکمل اقتدار حاصل کرکے طاقتور ہوگئی ہے تو جوچاہے کرسکتی ہے۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اس بارے میں یہی کہا گیا یا دعوے کئے گئے کہ وہ نہ صرف کانگریس کا سیاسی متبادل فراہم کرنے میں مختلف ہے بلکہ بی جے پی متبادل سیاسی کلچر فراہم کرنے والی پارٹی ہے۔ واجپائی، اڈوانی کی نسل نے اقتدار پر مبنی سیاست کی نمائندگی کا دعوی کیا اسے اب اعلی اقدار کی سیاست سے تبدیل کردیا گیا جس کے ساتھ اس کی قیمت کا لیبل بھی چسپاں ہے۔ مثال کے طور پر انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ
(ED)
کو لیجئے اس نے اب گیہلوٹ برادران کو کھاد کے ایک مبینہ اسکام کے ضمن میں سمن جاری کئے جو سال 2007ء میں پیش آیا تھا۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ پر اکثر بی جے پی کی انتہائی قریبی حلیف ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کے بارے میں یہی کہا گیا کہ ای ڈی کو سیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے اور سیاسی انتقام لینے کے لیے ایک ترجیحی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ گہلوٹ برادران کے خلاف ایک پرانے کیس کا احیاء اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ویسے بھی یہ ایک ایسے وقت کیا گیا جبکہ راجستھان میں ایک سیاسی ہنگامہ برپا ہے۔ ہم اسے کسی بھی طرح حسن اتفاق نہیں کہہ سکتے۔
یہاں بھی جوابی استدلال پیش کرتے ہوئے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کے استحصال کا وہ قدیم ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس رجحان کا آغاز کانگریس نے ہی کیا۔ اگر کانگریس کے دور اقتدار میں (سنٹرل بیورو آف انویسٹگیشن) پنجرہ میں قید ایک طوطا تھی تو اب افورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ بی جے پی حکومت میں ایک طاقتور شکاری کتا
Rottweiler
بن گئی ہے۔ جہاں تک راجستھان میں سیاسی ہنگامہ کا سوال ہے یہ الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے ارکان اسمبلی کو وہاں کثیر رقم کی پیشکش کی جارہی ہے اگر جو کثیر رقم بتائی جارہی ہے وہ قیاس پر مبنی بھی ہو تب بھی کابینہ میں جگہ دینے کا لالچ یا ترغیب کو انحراف کا ناقابل تردید کاز کہا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ بی جے پی نے ایک اپوزیشن پارٹی سے حکمراں جماعت تک کا ایک طویل سفر طے کیا اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ مکمل برتری حاصل کرنے کی جدوجہد میں آئیڈیل ازم اور نظریات کے معاملہ میں دروغ گوئی کی نقل کررہی ہے۔ بی جے پی کی اس جدوجہد میں در حقیقت سابق کانگریس قائدین کی کثیر تعداد شامل ہورہی ہے اور دن بہ دن ان کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کانگریس زعفرانی لہر میں بہہ گئے ہیں۔ مثال کے طورپر منی پور کے چیف منسٹر این بیرن بی جے ی میں شمولیت سے قبل کئی دہوں تک کانگریس سے وابستہ تھے۔

گوا کے ڈپٹی چیف منسٹر چندرا کانت کاولیکر بھی بی جے پی میں شمولیت سے قبل مسلسل چار مرتبہ کانگریس کے رکن اسمبلی رہے۔ کرناٹک کابینہ میں شامل کم از کم 10 وزراء بھی کانگریس میں تھے۔ شیوراج سنگھ چوہان حکومت میں نصف وزراء سابق کانگریسی ہیں۔ آسام کے سب سے طاقتور وزیر ہنمنتا بسوا شرما طویل عرصہ تک کانگریس میں شامل رہے۔ ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے۔

ایک سطح پر یہ بھی کہا گیا کہ یہ دراصل کانگریس میں ہی ایک تسلسل کی مانند رہے اور کمزور قیادت اس بہائو کو روکنے کے قابل نہیں۔ لیکن دوسری سطح پر اُس نئی بی جے پی میں تیاری کی جبلت کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ بی جے پی مخالفین کو حتم کرنے قابل فہم موقع استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس عمل میں کبھی انتہائی ڈسپلن کی پابند پارٹی کے طور پر اپنی پہنچان رکھنے والی بی جے پی کے ڈھانچہ کو نظریاتی انتشار کا جوکھم لاحق ہوگیا ہے۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ مودی۔ امیت شاہ دور میں بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے سرسنچالک ثانوی حیثیت اختیار کرگئے۔ مزید یہ کہ ادارہ جاتی (اداروں پر اپنی گرفت) محفوظ کرنے کا عمل بی جے پی نے تقریباً مکمل کرلیا ہے۔ بی جے پی کو اصول و ضوابط بتانے والے ایک الیکشن کمشنر کو منیلا میں ایک غیر اہم عہدہ دے کر منتقل کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کو اس کے وظفیرہ پر سبکدوشی کے چند ماہ بعد راجیہ سبھا کے لیے نامزد کردیا گیا۔ جبکہ ایک برسر خدمت جج وزیر اعظم کی یہ کہہ کر ستائش کرتا ہے کہ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل لائق شخصیت ہے پس حد تو یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کی برخواستگی کے وقت پارلیمنٹ ایک نوٹس بورڈ کی طرح گھٹ کر رہ گئی ہے۔
میڈیا کا ایک بڑا حصہ
Cheerleader
کی طرح کام کررہا ہے۔ ایسے میں بی جے پی مسلسل اپنا وجود پھیلاتی جارہی ہے۔ کل مدھیہ پردیش تھا آج راجستھان ہوسکتا ہے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والے کل کس اپوزیشن زیر قیادت ریاست کا نمبر ہوگا۔ ان حالات میں جواب دہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔