اللہ بچائے مسلمان کو قائدین ملت سے

   

ظفر آغا
اللہ بچائے ہندوستانی مسلمانوں کو قائدین ملت سے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد ہندوستان میں صحیح معنوں میں کوئی مسلم قائد پیدا ہی نہیں ہوا۔ کیونکہ قائد اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنے مفاد میں نہیں بلکہ قوم کے مفاد میں کام کرتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ عالم ہے کہ خود ساختہ قائد اپنے مفاد میں زیادہ اور قوم کے مفاد میں تو کچھ کرتے ہی نہیں۔ تبھی تو جب جب اس ملک میں کوئی مسلم مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تب تب کہیں آسمان سے قائد ٹپک پڑتے ہیں۔ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ قائدین کی جانب سے جذباتی اور بھڑکاؤ بیانات آتے رہتے ہیں۔ آخر قوم سخت خسارے میں رہتی ہے۔ ادھر قائدین مال کاٹ لیتے ہیں یا پھر بڑے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں۔ دوسری اہم بات جو ایک سچے قائد میں ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کو دور اندیش ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ قوم کے حق میں جو فیصلہ لے وہ آگے چل کر قوم کے حق میں ہی ثابت ہو نہ کہ اس کے فیصلے سے قوم کو نقصان پہنچے۔ اگر آپ اس کسوٹی پر کم از کم پچھلے تیس برسوں میں نام نہاد اور خود ساختہ مسلم قائدین پر ایک نگاہ ڈالیں تو یہ صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں کسوٹی پر اپنے کو مسلم قائد کہنے والے کھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو اہم تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلم قائدین کے طرز عمل سے مسلمانوں کو سخت نقصان ہوا جب کہ مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والے مزے میں رہے۔
سب سے پہلی مثال خود بابری مسجد-رام مندر قضیہ کی ہے۔ سنہ 1986 میں جب بابری مسجد کا تالا کھلا تو یکایک راتوں رات کہیں سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی پیدا ہو گئی۔ جناب اس ایکشن کمیٹی میں مرحوم مولانا بخاری اور مرحوم سید شہاب الدین کے زیادہ تر افراد کے خود مسلمانوں نے بھی پہلے نام بھی نہیں سنے تھے۔ خیرجب یہ کمیٹی گویا مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد معاملے کی ٹھیکے دار ہو گئی۔ تالا کھلتے ہی بابری مسجد کے تحفظ کے لیے پوری مسلم قوم کی جانب سے پہلے کمیٹی نے انتہائی جذباتی بیان بازی شروع کر دی، اور پھر جلد ہی اس کی جانب سے سڑک کی سیاست شروع ہو گئی۔ بڑی بڑی مسلم ریلیاں جس میں مسجد کے تحفظ میں جان دے دینے کی قسمیں اور کسی بھی حالت میں وہاں پر رام مندر تعمیر نہ ہونے دینے کی دھمکیاں شروع ہو گئیں۔ مسلم ریلیاں ’نعرہ تکبیر، اللہ اکبر‘ کی صداؤں سے گونجنے لگیں۔
یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جس میں سَنگھ اور بی جے پی کی جانب سے کوئی سڑک کی سیاست نہیں کر رہا تھا۔ ان کی جانب سے وشو ہندو پریشد یہ بیان دے رہا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مسجد کی زمین ہندوؤں کے حولاے کر دیں کیونکہ وہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اب بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے قائدین ملت یہ بھول گئے کہ اگر مسجد مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی اور جذباتی معاملہ ہے تو رام مندر کی تعمیر بھی ہندوؤں کے لیے اتنا ہی جذباتی اور اس کے عقیدے کا مسئلہ ہے۔ سَنگھ کو یہ بات بخوبی سمجھ میں آرہی تھی۔ چنانچہ اس معاملے پر اس نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کو خوب واویلا کرنے دیا۔ جب مسلمان رام مندر تعمیر کی کافی مخالفت کر چکے تو اب سَنگھ کی جانب سے پہلے وشو ہندو پریشد نے رام مندر کے حق میں سڑک کی راہ لی۔ بس دیکھتے دیکھتے ہندوستان ’جئے شری رام‘ اور ’مندر وہیں بنائیں گے‘ جیسے نعروں سے گونج اٹھا۔ اب معاملہ ہندو-مسلم عقائد کا ہو گیا۔ پھر لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترائیں شروع ہو گئیں۔ آخر میں سنہ 1992 میں مسجد ڈھا دی گئی۔ سنہ 1986 اور سنہ 1992 کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں مسلمان جان سے مارا گیا۔ جب مسجد گری تو مسجد کے تحفظ میں جان دینے والے قائدین کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ان میں سے کسی کا بال بیکا نہیں ہوا۔ سب کے سب مالدار ہو گئے یا سیاست میں چمک گئے۔ ساری مسلم قوم گئی۔ یہی حال تین طلاق معاملے کا مسلم پرسنل لاء￿ بورڈ کی قیادت میں ہوا۔
ہندوستانی مسلمان کو اس تجربہ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک مودی راج میں ماب لنچنگ سے لے کر دوسرے تمام معاملات میں وہ صبر سے خاموش رہا۔ اس کی جانب سے کسی قسم کی جذباتی یا سڑک کی سیاست نہیں ہوئی۔ لیکن افسوس کہ کاشی اور متھرا مساجد کے معاملے میں مسلم مجلس مشاورت، جمعیت علمائے ہند (محمود مدنی گروپ) اور چند خود ساختہ مسلم دانشوران پھر غیر ذمہ دارانہ رول ادا کر رہے ہیں۔ پھر وہ ریلی، سمینار اور جذباتی بیان بازی کی کوشش کر رہے ہیں۔ بابری مسجد معاملے کی طرح اس قسم کی سیاست سے محض بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ مسجد تو جائے گی ہی، کتنے مسلمان مارے جائیں گے کہنا مشکل ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کاشی اور متھرا جیسی صدیوں پرانی مساجد کے معاملے میں بالکل خاموش رہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا ہے۔ تو پھر کیا حکمت عملی ہو! موجودہ سیاسی اور سماجی ماحول میں مسلمانوں کی جانب سے محض صرف ایک بیان آنا چاہیے کہ عدالت کا جو فیصلہ ہوگا، وہ ہم کو منظور ہوگا۔ اب عدلیہ ان معاملات میں کس قدر انصاف کرتی ہے، یہ بات تاریخ طے کرے گی۔ کسی قسم کی سڑکوں کی سیاست اور جذباتی و مذہبی بیان بازی سے مسلمان کو نقصان اور بی جے پی کو فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔ میری ادنیٰ رائے میں موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمان کو وہی حکمت عملی اپنانی چاہیے جو خود رسولؐ پاک کی مکی دور میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکی دور میں محض صبر سے کام لیا۔ جب حالات موت و زندگی کے بیچ ہو گئے تو رسولؐ نے خاموشی سے مکہ سے ہجرت کی۔ حد یہ ہے کہ اللہ کا گھر یعنی خانہ کعبہ تک دشمنوں کے بیچ چھوڑ دیا۔ یعنی جب کوئی قوم مجبور حالات کا شکار ہو تو سنت رسولؐ یہ بتاتی ہے کہ وہ محض صبر سے کام لے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات میں محض صبر کے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لیے بابری مسجد کے دور کی سڑکوں کی سیاست اور جذباتی نعرہ بازی سے قطعاً دور رہیے۔ کوئی بھی تنظیم یا فرد اگر اس قسم کی سیاست کرے تو سمجھ لیجیے کہ وہ جانے انجانے میں بی جے پی کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ مسلمان ایسی ہر تنظیم یا افراد کا سوشل بائیکاٹ کریں۔ یہ وقت محض صبر سے اپنی زندگی کے تحفظ کا ہے جو رسول نے اپنے مکی دور میں کیا۔