الیکشن کمیشن کا مودی سے ڈر

   

پروفیسر اپوروانند
لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کی انتخابی مہم میں وزیراعظم نریندر مودی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ عہدہ وزارت عظمی کے باوقار عہدہ پر فائز رہنے کے باوجود ملک کی سب بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف زبان چلارہے ہیں ، جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں حد تو یہ ہیکہ وہ کانگریس کے انتخابی منشور کا نام لیکر فرضی دعوے بھی کررہے ہیں جیسے جیسے انتخابی مہم شدت اختیار کر جائے گی اور انتخابی مراحل آگے بڑھتے جائیں گے ویسے ویسے وزیراعظم کے بیانات اور دعوؤں میں بھی مزید گراؤٹ آتی جائے گی ( وزیراعظم نے راجستھان میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے مسلمانوں کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے قرار دیا اور کہا کہ اگر کانگریس کو اقتدار حاصل ہوگا تو وہ آپ ( ہندوؤں ) کی جائیدادوں و دولت کو مسلمانوں میں تقسیم کرے گی ۔ ایک بات ضرور ہیکہ وزیراعظم نریندر مودی نے سیاسی تقاریر و بیانات کا معیار گرادیا ہے ۔ وائر کے ایڈیٹر سدھارتھ ورداراجن کے مطابق وزیراعظم مسلمانوں کے خلاف انتخابی مہم میں مسلسل بولتے ہی جارہے ہیں ایسے میں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اور کتنا گر جائیں گے ہر کوئی نریندر مودی کو 2002 سے دیکھ رہا ہے اور 2002 میں اور اس کے بعد گجرات میں ان کی تقاریر و بیانات کو بھی ہم سب ہی نے دیکھا ہے سنا ہے تب سے لیکر آج تک کہ سفر میں انہوں نے دوسروں کو کبھی مایوس نہیں کیا یعنی اگر کوئی یہ سوچنے لگے جیسا کہ ہمارے یہاں کہاؤت ہے کہ اگر آپ وکرم آدتیہ کے تخت پر بیٹھیں تو آپ کا رویہ بدل جاتا ہے ۔ بہت سارے لوگوں کا ایسا کہنا ہے یا آپ نیچ کی کرسی پر بیٹھیں تو رویہ بدل جاتا ہے لیکن نریندر مودی نے ثابت کیا ہے کہ ان سے آپ یہ اُمید نہیں کرسکتے وہ اس کرسی کا ہی رویہ بدل دیں گے ۔ اس کی شکل بدل دیں گے یا عہدہ کا رویہ بدل دیں گے تو ان کا وہ رویہ بنا ہوا بلکہ وہ رویہ مزید ظالمانہ ہوتا چلا گیا ہے ملک میں انتخابی مہم جاری ہے اور اس میں بھی انہوں نے یہ ثابت کیا ہے اس لئے ہم جو یہ قیاس آرائی کررہے ہیں کہ آگے کیا ہوگا یہ بیکار ہے کیونکہ ہم کو پتہ ہیکہ وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ، کہیں بھی جاسکتے ہیں اگر ان کو ایسا لگتا ہو کہ ایسا کرنے سے ان کو کچھ مل سکتا ہے ایسا کرنے سے عوام میں ان کے تئیں تائید و حمایت بڑھ سکتی جوش و خروش پیدا ہوسکتا ہے عوام ان کے پاس آسکتی ہے تو وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں یعنی ان کے حامی بھی یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کوئی یہاں تک جاسکتا ہے اس حد تک جاسکتا ہے ۔ میں حیران نہیں ہوں گا اگر بی جے پی کے لوگ راست حملہ کی بھی وکالت کرنے لگے۔ ابھی وہ نہیں کہا جارہا ہے لیکن وہ بالراست طور پر کہا جارہا ہے اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اسے ہم صرف نریندر مودی تک محدود نہ کریں یہ اس آدمی کے ساتھ ایک طرح کی ناانصافی ہے اور بی جے پی کے ساتھ بھی ایک ناانصافی ہے کیونکہ بی جے پی کے مابقی لیڈران کو ہم کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ آپ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کا بیان پڑھئے، راجناتھ سنگھ کا بیان پڑھئے، نڈا صاحب کا بیان دیکھئے، کرناٹک میں ان کی حرکتیں دیکھئے جو ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں ایک خاتون کو اس کے چاہنے والے مسلمان نے مارا اس واقعہ کو لے کر نڈا صاحب اور بی جے پی کے جو باقی لیڈران کررہے ہیں اور یا پھر اترپردیش کے چیف منسٹر یا آسام کے چیف منسٹر جو کچھ کررہے ہیں تو میں یہی کہوں گا کہ پوری بی جے پی کے بارے میں بات کرنی چاہئے۔ نریندر مودی اسی بی جے پی کے لیڈر ہیں جو پوری کی پوری پارٹی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم، انتخابی مہم کے نام پر چھیڑ چکی ہے۔ بی جے پی نے اور مودی نے انتخابی مہم میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ بی جے پی قائدین کھلے عام مسلمانوں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں اور خفیہ الفاظ کا بھی استعمال کرتے جارہے ہیں، جھوٹ پر جھوٹ کہے جارہے ہیں اب کی بار 153 (دونوں طبقات، مذاہب کے بارے میں نفرت پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے استعمال کی جانے والی آئی پی سی کی دفعہ) ہم ایک بات یہ سمجھ لیں کہ انہوں (وزیر اعظم) نے آحر کیا بات کہہ دی انہوں نے کہا کہ آپ کے منگل سوتر بھی چھین کر دراندازوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں میں تقسیم کردیں گے۔ ان کا ایسا کہنا صرف ایک طرح کی عوام کو مخاطب کررہے ہیں اور صرف ایک طرح کے لوگوں کو یہ اپنے لوگ مان رہے ہیں تو کانگریس کو ہی یہ بھلے بولیں کہ ان کے خاص لوگ لیکن انہوں نے ثابت کردیا کہ ان کے خاص لوگ کون ہیں، کم سے کم ان کی سمجھ کے لحاظ سے انہوں نے اپنے دل کی بات کہہ دی کیونکہ منگل سوتر نہیں پہننے والی اس ملک میں بہت عورتیں ہیں، مسلمان عورتیں ہیں، پارسی اور عیسائی عورتیں ہیں اور بھی دوسرے مذاہب کی عورتیں ہیں یا قبائیلی ہوں گے یا اور ہوں گے جن میں منگل سوتر لازمی نہیں ہے، تو اس کا مطلب وہ عورتیں آپ کے لوگ نہیں ہیں، آپ ان کے بارے میں بات نہیں کررہے ہیں۔ (اور ان سے کچھ چھینا جائے گا آپ اس کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں، حالانکہ سارا جھوٹ ہے کوئی کسی سے کچھ نہیں چھین رہا ہے) میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اس طرح کی باتوں سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ دراصل ان کے خاص کون ہیں اور یہ بہت فکر کی بات ہے، کیونکہ الیکشن میں ہر جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کے اسے ووٹ ملے تو وہ ہر طبقہ کی زبان بولنا چاہتا ہے، ہندو کو بھی مخاطب کرے گا مسلمان کو بھی مخاطب کرے گا سکھ اور عیسائیوں کو بھی مخاطب کرے گا، اس کی زبان ایسی ہوگی جو سب پر لاگو ہوگی لیکن ایک ایسی جماعت ہے جو خاص طور پر باقی سب کو کاٹ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں صرف ان کے کے لئے ہوں اور ان میں بھی کچھ خاص کے لئے یہ ہمارے لئے بھی فکر کی بات ہے۔ مسلمانوں لئے فکر کی بات ہو لیکن ہمارے پاس ایک ایسی پارٹی ہے جو برسر اقتدار ہے جو یہ اعلان کررہی ہے کہ مجھے باقی لوگوں سے بات کرنی نہیں ہے۔ یف منسٹر آسام ہیمنتا بسواسرما نے الیکشن سے پہلے یہ کہا کہ مجھے یہاں مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے نہا دھو لیجئے اور پھر آیئے میں آپ کو اپنے یہاں آنے دوں گا، ایسے ہی وہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے آپ پڑھ لکھ لیں پہلے آپ کم بچے پیدا کیجئے پھر آپ میرے پاس آئیے میں آپ سے ووٹ مانگوں گا یہ ہنمتابسوا سرما نے پہلے کہا تھا یہاں پر وہ بات دہرائی جارہی ہے۔ نریندر مودی اور بی جے پی کے باقی قائدین کہہ رہے ہیں پچھلے دس دن سے اس بات پر فکرمندی ظاہر کی جارہی ہیکہ الیکشن کمیشن اس طرح کے بیانات پر خاموش کیوں ہیں؟ آپ کو یاد ہوگا کہ یو پی اے کے دور حکومت میں سلمان خورشید کے ایک بیان پر الیکشن کمیشن نے انہیں نوٹس دی تھی اور پہلے سلمان خورشید نے کہا تھا کہ ہم اپنا بیان واپس نہیں لیں گے لیکن قریشی صاحب چیف الیکشن کمشنر تھے انہوںنے صدر جمہوریہ کو مکتوب لکھا اور پھر سلمان خورشید کو اپنا بیان واپس لینا پڑا تو الیکشن کمیشن کی اتنی طاقت ہوتی ہے وہ اس طرح کے بیانات پر کارروائی کرسکتا ہے لیکن اپنی اس طاقت کو پوری طرح سے چھوڑ دینا خود کو پوری طرح حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق ڈھال لینا بلکہ مختلف بہانہ تراشنا کہ کیوں یہ نفرت انگیز خطاب نہیں ہے، انڈین ایکسپریس میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن شاید یہ کہنے والا ہے کہ رام مندر یا باقی چیزوں کا استعمال وزیر اعظم نے کیا ہے اس کو ہم انتخابی ضابط اخلاق کی خلاف ورزی نہیں مانیں گے تو اب الیکشن کمیشن ان سب کے حق میں بہانے تلاش کررہا ہے اور اس کا مطلب یہی ہیکہ راہول گاندھی اور دوسرے لوگ پچھلے کچھ برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں جمہوریت اور جمہوری ادارے بی جے پی کے کنٹرول میں ہیں۔ اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کی مثال لی جاسکتی ہے۔ اب تو عوام بھی کہنے لگے ہیں کہ الیکشن کمیشن حکومت کے اثر میں کام نہیں کررہا ہے بلکہ اس سے ڈر رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نفرت انگیز خطاب HATE Speech کے معاملہ میں الیکشن کمیشن وزیر اعظم نریندر مودی کو راست نوٹس بھی نہیں دے سکتا بلکہ صدر بی جے پی نڈا کے نام نوٹس جاری کرتا ہے ساتھ ہی توازن برقرار رکھنے کے لئے صدر کانگریس کو بھی نوٹس جاری کردیتا ہے۔ وزیر اعظم آخر ہیں کیا؟ وزیر اعظم بھی انتخابی مہم چلانے والے ایک اسٹار کمپینر ہیں ٹھیک ہے وہ وزیر اعظم بنے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو مودی اب صرف انتخابی مہم چلانے والے بنے ہوئے ہیں، بی جے پی کے اہم انتخابی مہم چلانے والے ہیں اگر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کریں گے تو اسٹار کمپنیز بی جے پی لیڈر نریندر مودی کو نوٹس جاری کریں گے جوکہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہیں اور جنہوں نے نفرت انگیز و اشتعال انگیز خطاب کرتے ہوئے جرم کا ارتکاب کیا ہے جو جرم بالکل واضح ہے۔ انہوں نے ایسا جرم کیا ہے جس کے خلاف 153، 295 اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور قانون عوامی نمائندگی کی خلاف ورزی کے تحت مقدمات درج کئے جاسکتے ہیں۔ یہ تو واضح اور صاف ہے لیکن الیکشن کمیشن خوف میں مبتلا ہے خوف سے زیادہ میں کہوں گا کہ یہ سارے لوگ ثابت کررہے ہیں کہ ہم بی جے پی کی پیدل فوج ہے۔ ایک بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پہلے مرحلہ سے ہی مودی نے اشتعال انگیز تقاریر کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ پہلے مرحلہ میں کانگریس کا انتخابی منشور جاری ہوچکا تھا اور اس انتخابی منشور پر وزیر اعظم کا پہلا تبصرہ تھا کہ اس کے ہر صفحہ پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے تو میں نہیں مانتا کہ بدحواسی میں آپ یہ کہ رہے ہیں، میرا یہ کہنا ہے کہ یہ ان کی زبان ہی ہے اور ہم لوگ یہ بھی کہنے کے عادی ہوگئے ہیں کہ یہ اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔، اس لئے آپ اس پر بات مت کیجئے کیونکہ لوگوں کا ذہن ان مسائل سے ہٹ جائے گا لیکن ہمیں اس پر بھی بات کرنی چاہئے کہ اس کے قائدین کس قسم کے لوگ ہوں گے کیسے لوگ ہوں گے اور کیا اس بات کو اس وجہ سے معاف کیا جاسکتا ہے کہ الیکشن میں تو یہ چلتا ہے۔