امتیاز جلیل’میں اورنگ آباد ایم پی ہوں‘ مسلم ایم پی نہیں ہوں‘

,

   

سترویں لوک سبھا کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل پہلی مرتبہ رکن پارلیمنٹ بنے امتیاز جلیل کا گھر گلدستوں سے بھرا پڑا تھا اور وہ محض ایک گھنٹہ ہی آرام کرپارہے تھے

اورنگ آباد۔سترویں لوک سبھا کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل پہلی مرتبہ رکن پارلیمنٹ بنے امتیاز جلیل کا گھر گلدستوں سے بھرا پڑا تھا اور وہ محض ایک گھنٹہ ہی آرام کرپارہے تھے۔

یہ غیرمعمولی نہیں ہے۔ مقامی ہیرو کے طور پر ممبر آف پارلیمنٹ کی حیثیت سے جیت حاصل کی ہے اور جلیل اس وقت سے مشہور ہیں جب انہوں نے اورنگ آباد کی سنٹرل سیٹ سے شیوسینا کے خلاف اسمبلی الیکشن 2014میں جیت حاصل کی تھی۔

تاہم پانچ سال بعدجیل کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ الگ لوگ انہیں مبارکباد پیش کرنے کے لئے آرہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ”سال2014میں 100لوگ مبارکباد دینے کے لئے ائے تو سارے مسلمان تھے۔ آج تمام مذاہب او رطبقات کے لوگ ہیں“۔

اورنگ آباد کے لئے عام الیکشن کے اعلان کے 28دن قبل صحافی سے سیاست داں بنے جلیل کا نام ونچت بہوجن اگھاڈی(وی بی اے) اور کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے اتحادی کے طور پر اعلان کیاگیا۔

وی بی اے جس کا قیام بی آر امبیڈکر کے پوترے پرکاش نے مارچ2018میں عمل میں لایاتھا‘ اپنی بنیادی حمایت دلت‘ قبائیلی او ردیگر پسماندہ طبقات کی وجہہ سے ایک مضبوط حریف کے طور پر سامنے ائی ہے۔

کانگریس کی جانب سے بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) کی ”بی ٹیم“ (کیونکہ وی بی اے کی وجہہ سے مخالف بی جے پی ووٹوں کی تقسیم ہوئی ہے) مذکورہ وی بی اے نے فوری طور پر اپنے امیدواروں کی تعلیمی قابلیت اور ان کے طبقہ کاذکر کرنے کے فیصلے سے خود کو الگ کرلیا۔

لوک سبھا الیکشن میں وی بی اے اور اے ائی ایم ائی ایم اتحاد نے4.11ملین ووٹ حاصل کئے جو مہارشٹرا میں ہوئی جملہ رائے دہی کا 7.63فیصد تھا۔اورنگ آبا دشیو سینا کا مضبوط گڑہ رہا ہے او روہ اس کی تقسیم کی سیاست کی مثال بھی مانا جاتا ہے۔

جلیل پندرہ سالوں میں پہلے مسلم رکن پارلیمنٹ ہیں جس نے ایک تاریخی جیت حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراہٹواڑہ یونیورسٹی(بی اے ایم یو) میں شعبہ پولٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر ایچ این سونکابل نے کہاکہ ”پچھلے بیس سالوں میں پہلی مرتبہ دلت او رمسلمان ایک ساتھ ائے ہیں۔

جلیل نے دیکھا یا ہے کہ اقلیتی طبقات ایک ساتھ ہوتے ہیں تو تبدیلی کا رحجان ملتا ہے“۔جلیل اس وقت این ڈی ٹی وی کے لئے پونا شہر سے کام کرتے تھے۔

سال 2014میں بیڈ کی ایک ریالی میں امیت شاہ او رپنجا منڈی کا انتظار کیاجارہا تھا۔ جلیل نے یا دکرتے ہوئے کہاکہ ”پروگرام چار گھنٹے تاخیرسے شروع ہوا“۔

انہوں نے کہاکہ ”میں نے سونچا کہ’یا ر میں کیا کررہاہوں‘ کچھ سال قبل جس نے صحافت شروع کی تھی یہ لوگ میرے سامنے بیٹھتے تھے۔

میں پچھلے 23سال سے انہیں کور رکرہاہوں‘ میں اب بھی وہی کررہاہوں“۔و ہ گھر ائے اور اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ جلیل نے کہاکہ ”میں نے نوٹس کے وقت میں بھی کام نہیں کیا‘میرے لئے کافی تھا“۔

وہ دراصل اورنگ آباد واپس آکر اپنے گھر والو ں کے ساتھ وقت گذارنا چاہتے تھے اورپھر پونا کے سیمبوسیس انسٹیٹوٹ میں میڈیااو رکمیونکشن پڑھانے کی فراغ میں تھے۔

جلیل نے کہاکہ ”شراد پورا نے اس وقت کہاتھا کہ وہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیں گے اور مسلمانوں کا کردار مشکوک ہیں“۔

ایک رات جب با ت چل رہی تھی کہ سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی کس قدر خراب ہے جلیل کے ایک دوست ان کی طرف راغب ہوا او رکہاکہ”اورنگ آباد سے تم کیوں نہیں ٹہرتے؟

تمہارے سے بہتر اس کام کے لئے کوئی دوسرا نہیں ہے‘ اس نے مجھ سے کہا اور یہ میں نے سونچا کہ یہ صحیح ہے“۔

سیاست میں شمولیت اختیار کرنے کے اپنے حیران کردینے والے فیصلے میں جلیل نے اے ائی ایم ائی ایم کا انتخاب کیا جس سے انہیں جاننے والے سکتہ ہوگئے۔

جلیل نے یا دکرتے ہوئے کہاکہ ”جب میں نے کہاکہ میں اس میں شمولیت اختیا رکررہاہوں تو گھر میں خاموشی چھا گئے“۔

حیدرآباد نژاد پارٹی کے متعلق کہاجاتا تھا کہ وہ قدامت پسند مسلم پارٹی ہے‘ جو سمجھتے تھے کہ بے قصور مسلمانوں کو جنھیں فرضی طور پردہشت گردی کے مقدمات میں ماخوذ کیاجارہا ہے ان کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔

مثال کے طو رپر حال ہی میں اے ائی ایم ائی ایم کے اسدالدین اویسی نے اپنی بحث میں تین طلاق کو جرم قراردئے جانے کو ”مخالف مسلم“ اور ”مسلم خواتین کے ساتھ بڑی ناانصافی قراردیا“ ہے۔

جلیل کو ملنے والی حمایت پر انہیں فخر محسوس ہوا کیونکہ کارکنو ں نے بلاتفریق مذہب او رذات پات ان کا ساتھ دیا او ران کے لئے کام کیاہے۔

جلیل کے منصوبوں میں اورنگ آباد کواسکل ڈیولپمنٹ کا مکرز بنانے اور شہر کے فضائیہ رابطے کو فروغ دینا ہے۔ فی الحال اورنگ آباد ائیرپورٹ پر بہت کم سہولتیں ہیں مگرجلیل کو امید ہے کہ وہ خانگی او رانٹرنیشنل دونوں کھلاڑیوں کو یہاں پر اتاریں گے

۔وہیں 2019میں اورنگ آبادسے چار مرتبہ کے شیو سینا رکن پارلیمنٹ چندرا کانت کھیرے نے ”تمہیں چاہئے تیر کمان یاخان“ کانعرہ بلندکیاتھا۔ جبکہ جلیل کے دوسری طرف مقامی مسائل او رترقی کی باتیں کی جس نے شہر میں بہت ساروں کو متاثربھی کیا۔

کھیرے کے لئے سخت مقابلے دینے والے امیدوار کے طور پر جلیل کا منظر عام پر لوگوں کو حیران کررہاتھا مگر جلیل کو نہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”اگر آپ کو جیت کا یقین نہیں ہے تو آپ کوالیکشن میں مقابلہ نہیں کرنا چاہئے“۔جلیل نے کہاکہ ”اگر مسلمان کسی مسلم امیدوار کو آگے بڑھتے ہیں اورمسلم ایم پی پارلیمنٹ بھیجنے کا خواب دیکھتے ہیں تو اس میں کوئی نقصاندہ بات نہیں ہے۔

مگر اہم بات یہ ہے کہ سماج کے اندر سے ایک بہتر امیدوار کو آگے بڑھایاجالے‘ جس کی شبہہ صاف ستھری ہو اور وہ تعلیم یافتہ بھی ہوا‘ ہمیں پارٹیوں سے بالاتر ہوکر دیکھناچاہئے“۔ انہوں نے کہاکہ ”جلیل کا کاندھے پر ’مسلم لیڈر‘ کا لیبل ٹھیک نہیں رہے گا“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”میں اورنگ آباد کے رکن پارلیمنٹ کے طور پر دیکھائی دینا چاہتاہوں‘ نہ ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کے۔ او ریہ کہ میرا کام میری پہچان بنے“