دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز کہاکہ 2020فبروری کو امروتی میں اسٹوڈنٹ جہدکار عمر خالد کی دی گئی تقریر‘جوبڑی پیمانے پر کی جانے والی سازش پر مشتمل چارج شیٹ کا ایک حصہ ہے جس کا تعلق نارتھ ایسٹ دہلی فسادات سے ہے‘ جارحانہ‘ ناگوار‘ نفرت انگیز تھی۔ جسٹس سدھارتھ مریدول او رجسٹس رجنیش بھٹناگر پر مشتمل بنچ نے کہاکہ ”یہ بھڑکاؤ‘ ناگوار۔ آپ کو نہیں لگتا؟۔ اس طرح کا خیالات کا استعمال کیاگیاہے۔
آپ کو نہیں لگتا کہ لوگوں کو انہوں نے اکسایا ہے؟آپ ایسی چیزیں کہیں گے ”آپ کے اجداد انگریزوں کی غلامی کررہے تھے‘ آپ اس کو بھڑکاؤ نہیں سمجھتے ہیں؟یہ بھڑکاؤ ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ اس تقریر میں آپ نے نہیں کہا ہے۔
ایسا پانچ مرتبہ آپ نے کہا ہے۔ تقریبا یہ ایسا رحجان ہے کہ آپ اس طرح کا تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ صرف ایک ہی کمیونٹی نے جنگ آزادی میں حصہ لیاہے۔ایسا عدالت نے نچلی عدالت کی جانب سے مسترد کردہ درخواست ضمانت کے خلاف دائر اپیل کی سنوائی کے دوران کہا ہے۔
مذکورہ بنچ نے پوچھا ”کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس سے گروپوں کے درمیان میں مذہبی جوش پیدا ہوگا؟کیاکبھی گاندھی نے ایسی زبان کا استعمال کیاہے؟کیا شہید بھگت سنگھ نے ایسی زبان کا کبھی استعمال کیاہے‘ انگریزوں کے خلاف بھی کیاہے؟کیا انہوں نے کیا؟کیاگاندھی جی نے ہمیں سیکھایا ہے کہ ہم لوگوں او ران کے اجداد کے خلاف غیرمہذب الفاظ کا استعمال کریں۔
ہمیں آزادی اظہار کی اجازت دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر آپ کیاکہہ رہے ہیں؟“۔ خالد کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ ترائدیپ پائس نے کہاکہ یہ محض ایک فرد کی رائے تھی جو اس نے اپنی تقریر کے دورا ن کیا اور اس پر کوئی ردعمل بھی نہیں آیا”یہ یقینا بھڑکاؤ نہیں“ ہے۔
تاہم عدالت نے استفسار کیاکہ آیا اس طرح کے ”ناگوار بیانات“ دینا اظہار خیال کی آزادی کا حق ہے اور آیا اس سے ائی پی سی کی دفعہ 153اے اور 153بی اثر انداز نہیں ہوگا۔مذکورہ بنچ نے کہاکہ ”ابتداء میں ہی ہم نے یہ کہا ہے کہ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ جمہوریت کے چار کونے کے تحت اور اظہار خیال کی آزادی کے تحت آنے والی باتیں ہی قابل قبول ہیں‘ یہ قابل قبول نہیں ہے“۔
وکیل ترائدیپ پائس نے بنچ سے اپنے جواب میں کہاکہ یہ یو اے پی اے کے معاملہ ہے جس کے تحت خالد پر دہشت گردی کا الزام لگایاگیاہے۔ انہوں نے کہاکہ ”معزز لارڈ شپ یہ مجھے بتائیں کہ یہ آیا153اے یا 153بی ہے“
۔انہوں نے مزید کہاکہ”یو اے پی اے کا آج استعمال بہت آسان ہوگیاہے‘ بیانات دینے والے لوگوں کا ایک عملہ حاصل کریں اور اس سے چارج شیٹ بنائیں“۔
مذکورہ عدالت نے کہاکہ اس درخواست ضمانت کو طویل وقت تک رکھنا وہ نہیں چاہتے ہیں اور اندرون تین دن پولیس کو ایک مختصر جواب داخل کرنے کا استفسار کیاہے۔ اس معاملے پر اگلی سنوائی کے لئے عدالت نے 27اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔