امریکہ ،پاک مخالف اور ہند موافق بیانات جاری نہ کرے

   

دونوں ممالک کے مشترکہ بیان پر پاکستان کا احتجاج، امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کی طلبی اور سرزنش

اسلام آباد: وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے دوران ہندوستان اور امریکہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان پر پاکستان نے سخت اعتراض کیا ہے۔ اسلام آباد نے امریکی نائب ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیا ن میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کے سلسلے میں وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کو پیر کے روز طلب کیا اور بیا ن پر اپنا احتجاج درج کرایا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ “امریکی سفارت کار کو پاکستان کے حوالے سے غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن حوالوں پر تحفظات اور مایوسی سے آگاہ کیا گیا۔”بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ “اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکہ ایسے بیانات جاری کرنے سے گریز کرے جو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے بے بنیاد اور سیاسی طور پر محرک بیانیہ کی حوصلہ افزائی کے طور پر سمجھے جائیں۔”پاکستان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکی سفارت کار کو یاد دلایا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی میں تعاون بہتر طور پر آگے بڑھ رہا ہے اور یہ کہ اعتماد اور افہام و تفہیم پر مرکوز ماحول پاک امریکہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ناگزیر ہیہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ ہفتے امریکہ کے تین روزہ دورے پر تھے۔ اس دوران انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب کرنے کے علاوہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ متعدد امور پر تفصیلی بات چیت بھی کی تھی۔ دونو ں رہنماوں کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا۔مشترکہ بیان میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اس امر کو یقینی بنانے کیلئے فوری اقدام کرے کہ اس کے کنٹرول والے کسی بھی علاقے کا استعمال دہشت گردانہ حملوں کیلئے نہ کیا جائے۔مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا، “صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئے تمام گروپوں بشمول القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے پر زور دیا ہے۔”پاکستان دفتر خارجہ نے مشترکہ بیان کے فوراً بعد جمعے کے روز ہی ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے اسے غیر ضروری، گمراہ کن اور یک طرفہ قرار دیا تھا۔ اس نے مشترکہ بیان کو “تمام سفارتی ضابطوں کے برخلاف اور سیاسی اغراض پر مبنی” قرار دیا تھا۔ پاکستان دفتر خارجہ نے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی دہشت گردی کیلئے قربانیاں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور بڑی طاقتوں کی سنجیدہ شراکت کے بغیر دہشت گردی کی لعنت پر قابو پانا کسی ایک ملک کیلئے تن تنہا ممکن نہیں ہے۔دریں اثنا امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ، ملکی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ہم پورے خطے میں دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گرد حملوں کے باعث برسوں مشکلات برداشت کی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خاتمے اور اپنی نیشنل ایکشن ٹاسک فورس کے ایکشن پلان کو مکمل کرنے کیلئے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں ساجد میر کو گرفتار کرنا اور اسے سزا سنانا بھی شامل ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم مسلسل اس بات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان لشکرطیبہ، جیش محمد اور متعدد انتہائی مضبوط دہشت گرد تنظیموں سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کیلئے اقدامات جاری رکھے۔ میتھو ملر نے مزید کہا کہ ہم پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ یہ مسئلہ باقاعدگی سے اٹھاتے رہیں گے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔