امریکہ اور چین کی دشمنی

   

محمد فیاض الدین
امریکہ اور چین کے درمیان فی الوقت ایسا لگتا ہے کہ کئی ایک محاذوں پر جنگیں لڑی جارہی ہیں۔ ایک تو تجارتی محاذ پر دونوں ملکوں کے درمیان نہ دکھائی دینے والی جنگ جاری ہے دوسری طرف سفارتی جنگ میں بھی دونوں ممیالک مصروف ہیں۔ تیسری جانب کورونا وائرس کو لے کر بھی الزامات و جوابی الزامات کی جنگ کا سلسلہ زور پکڑ چکا ہے۔ امریکی شہر ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ کو بند کرنے کا حکم دیا گیا جواب میں چین نے اپنے شہر چینگڈو میں امریکی قونصل خانہ کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان جاری سفارتی جنگ کے آنے والے دنوں میں شدت اختیار کرلئے جانے کا پورا پورا امکان ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بارہا یہ الزام عائد کیا ہے کہ کورونا وائرس کی تباہی کے لئے چین ذمہ دار ہے اور کورونا وائرس ووہان کی ایک لیباریٹری میں تیار کیا گیا۔ نتیجہ میں آج ساری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور کروڑوں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

عالمی معیشت کو زبردست دھکہ پہنچا ہے۔ اقتصادی و سلامتی امور کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس نے جہاں دنیا کی عالمی معیشت پر کار زرب لگائی ہے۔ ہر ملک معاشی انحطاط کا شکار نظر آتا ہے لیکن چینی معیشت پر زیادہ اثر نہیں پڑا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین کے عزائم بہت خطرناک ہیں۔ ویسے بھی چین نے دنیا کے کم از کم 50 ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ اس کے خفیہ قرضوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے 20 برسوں کے دوران 20 ہزار کروڑ ڈالرس کے خفیہ قرض دیئے ہیں۔ ساتھ ہی ماہرین اقتصادیات یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ چین نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو جو قرض دیئے ہیں وہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے دیئے گئے قرضوں سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسری جانب امریکہ کو یہ خوف لاحق ہے کہ چین بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور دنیا کے سونے کے ذخائر پر اس کی نظریں مرکوز ہوگئی ہیں۔ ان حالات میں چین کو عالمی برادری سے الگ تھلگ کرنے کی خاطر مبصرین کے مطابق امریکہ نے الزام تراشیوں اور پروپگنڈہ کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔

کورونا وائرس کو لے کر اب امریکہ جہاں چین پر شک و شبہ کررہا ہے وہیں اس نے عالمی ادارہ صحت کو بھی نہیں بخشا حال ہی میں امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو نے یہ کہہ کر ساری دنیا میں حیرت کی لہر دوڑا دی کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کوٹیڈروس چین کے ہاتھوں فروخت ہوچکے ہیں، جواب میں عالمی ادارہ صحت نے نہ صرف سخت برہمی کا اظہار کیا بلکہ پامپیو کے اس بیان کو بے بنیاد الزام تراشی قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ عالمی ادارہ صحت کا یہ موقف ہے کہ امریکہ بے بنیاد الزام تراشی کی بجائے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے ٹیکہ کی تیاری پر توجہ مرکوز کریں۔ کیونکہ عالمی سطح پر فی الوقت 15.6 ملین افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں جبکہ مختلف ملکوں میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 6,38,243 ہوگئی ہے۔

امریکہ کو شایت ہے کہ چین امریکی شہریوں کے حقوق اختراع اور ان کی نجی معلومات پر بری نظر ڈالے ہوئے ہے اور جہاں تک ہیوسٹن میں چینی قونصل خانہ کو بند کرنے کے حکم کا سوال ہے امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو اس بارے میں کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس اقدام کے ذریعہ امریکی شہریوں کے حقوق اختراع اور ان کی شخصی معلومات کو محفوظ بنانے کے لئے یہ کام کیا ہے۔ جہاں تک چینی شہر چینگڈو میں امریکی قونصل خانہ کو بند کرنے کا حکم ہے چین نے وہاں سے امریکی عملہ کو پیر تک ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ امریکی قونصل خانہ وہاں 1985 میں قائم کیا گیا تھا اور اس قونصل خانہ میں جملہ 350 لوگ کام کرتے ہیں جن میں 200 امریکی اہلکار اور 150 مقامی ملازمین ہیں۔ یہ کہا جارہا ہیکہ چونکہ چینگڈو تبت کے قریب واقع ہے اس لئے امریکہ وہاں سے کافی معلومات حاصل کرتا رہا۔ چین کا موقف یہ ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا۔ ایک بات ضرور ہے کہ امریکہ کے خلاف جاسوسی کے معاملہ میں اسرائیل سب سے آگے سمجھا جاتا ہے لیکن اب امریکی خفیہ ایجنسیوں بالخصوص سی آئی اے اے کی تمام توجہ چینی جاسوسوں پر مرکوز ہوگئی ہے۔

امریکہ میں غیر معمولی تعداد میں چینی شہری مقیم ہیں جن میں ماہرین تعلیم اور سائنسداں بھی شامل ہیں۔ ایک طرف امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ جاری ہے اور دوسری طرف امریکہ نے ایسے چار چینی سائنسدانوں کو گرفتار کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیپلز لبریشن آرمی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں نے ویزے حاصل کرنے کے دوران یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ چینی فوج پیپلز لبریشن آرمی سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکی نفاذ قانون ایجنسیوں کے عہدہ داروں کا یہ ماننا ہے کہ امریکہ میں چینی جاسوس سرگرم ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان باہمی اعتماد کم ہوگیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک دنیا پر تنہا سوپر پاور کی حیثیت سے حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہاں لوگ مر رہے ہیں اور امریکی عوام میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کافی برہمی پائی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہیکہ ٹرمپ کی مقبولیت گھٹ گئی ہے اور صرف وہ 36 فیصد باقی رہ گئی۔ ان حالات میں ٹرمپ چین کے بہانے اپنا موقف مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ وہ دوسری میعاد کے لئے ہر حال میں صدر منتخب ہونے کے خواہاں ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے حریف جوبیڈن کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لوگ ٹرمپ کو ایک ناکام صدر تسلیم کرنے لگے ہیں یہاں تک کہ انہیں امریکہ کے کامیاب صدور کی فہرست میں شامل کرنے سے بھی انکار کررہے ہیں۔ امریکی عوام یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹرمپ جہاں اندرون ملک کورونا وائرس پر قابو پانے میں ناکام رہے وہیں عالمی سطح پر خاص طور پر چین کے معاملہ میں ان کی پالیسی ناکام رہی۔