امریکہ میں راہول گاندھی کی پذیرائی

   

سربھی گپتا
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کا دورۂ امریکہ بہت کامیاب رہا ۔ انھوں نے تین امریکی شہروں کا دورہ کیا اور امریکہ میں مقیم ہندوستانی باشندوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اُنھیں اپنی کوشش میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔ اپنے دورۂ امریکہ میں راہول گاندھی نے خاص طورپر دنیا کے باوقار تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات اور ماہرین تعلیم سے خطاب اور تبادلۂ خیال کیا۔ راہول گاندھی کے نیویارک خطاب میں بے شمار ہندوستانی نژاد امریکیوں نے شرکت کی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ راہول کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ نے اُنھیں متاثر کیا ہے۔ راہول نے اس یاترا کے ذریعہ فرقہ پرستی اور نفرت کے بازار بند کرنے اور محبت کی دوکانات کھولنے کی کامیاب کوشش کی ۔ واضح رہے کہ راہول گاندھی نے امریکہ کا تین روزہ دورہ کیا اور 2024 ء کے عام انتخابات سے قبل ہندوستانی نژاد امریکیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ اُن کے دانشورانہ انداز میں گفتگو نے خاص طورپر نوجوانوں کو متاثر کیا اور خاص طورپر انھوں نے ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان ‘‘ والا جملہ بار بار دہرایا ۔ یہ وہ جملہ ہے جو انھوں نے بھارت جوڑو یاترا اور کرناٹک اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران دہرایا تھا ۔
راہول گاندھی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہنے سے گریز نہیں کیا کہ فی الوقت انڈیا میں اس کی جمہوری ساخت ، ہمارے اداروں ، عدلیہ ، میڈیا وغیرہ حملوں کی زد میں ہے ۔ ایسے میں ہم تمام کی ذمہ داری ہے کہ نظریہ ہندوستان ، آئیڈیا آف انڈیا کا دفاع کریں۔ راہول کے مطابق جدید ہندوستان کی بقاء ہمارے دستور اور جمہوریت کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے ۔ راہول نیویارک سٹی کے جاوس سنٹر میں انڈین اوورسیز کانگریس سے خطاب کررہے تھے ۔ راہول نے ایک اور اچھی بات کہی کہ جدید ہندوستان کے معماران اور بانیان خود غیرمقیم ہندوستانی ( این آر ائیز) تھے ۔ مثال کے طورپر مہاتما گاندھی ، پنڈت جواہر لال نہرو ، بی آر امبیڈکر ، سردار پٹیل ایسی شخصیتیں تھیں جنھوں نے بیرونی ملکوں سے تعلیم حاصل کی اور وسیع الذہن ، وسیع القلبی کے ذریعہ اپنے ملک کیلئے دلچسپ آئیڈیاز لائے اور میں ( راہول گاندھی ) بھی آپ تمام سے یہی توقع رکھتا ہوں کیونکہ آپ لوگ نہرو اور گاندھیوں کی آئندہ کی مستقبل کی نسل ہے ۔
راہول گاندھی نے ا پنے دورۂ امریکہ میں ہندوستانی نژاد امریکیوں اور این آر ائیز کو یہ بھی یاد دلایا کہ غیرمقیم ہندوستانیوں میں کس طرح کثرت میں وحدت ، پرامن بقائے باہم و تہذیبی تنوع کے نظریات مستحکم ہیں حالانکہ ان خوبصورت نظریات کو تباہ و برباد کرنے اس پر اثرانداز ہونے کی پوری پوری کوششیں جاری ہیں ۔ راہول کے مطابق ظلم و جبر برپا کرنا لوگوں کے حقوق چھین لینا ، ضد و ہٹ دھرمی اور پرتشدد ہوجانا یہ کسی بھی طرح ہندوستانی اقدار نہیں ہیں ۔ اگر یہ سب ہندوستانی اقدار ہوتے تو ہم کیوں مہاتما گاندھی ، گرونانک ، امبیڈکر ، بسواراج اور نارائن گرو کی تقاریب مناتے لیکن اب نفرت ایک نیا فیشن بن گیا ہے کہ جس کے ذریعہ آپ ہندوستانیت کا اظہار کرسکتے ہیں۔ ہندوستانیت کے اظہار کیلئے آپ کو نفرت و عداوات ، گالی گلوج کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ، لوگوں کو زدوکوب کرنا ہوگا جو آج کل ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔
راہول گاندھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الوقت ہندوستان میں دو نظریات کے درمیان لڑائی ہے ایک مہاتما گاندھی کا نظریہ امن اور دوسرا ناتھورام گوڈسے کا نظریہ تشدد ، ان دونوں نظریات کی لڑائی جاری ہے ۔ واضح رہے کہ ہندوستانی نژاد امریکیوں اور این آر آئیز خاص طورپر نوجوان نسل میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے ہندوستان کے سماجی دھاگے اور تانے بانے کو نقصان پہنچا ہے ۔ اسی طرح کے خیالات ظاہر کرنے والوں میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے ایک پیشہ وار ماہر اور نیوجرسی کے ساکن سدھانشو سیٹھی بھی شامل ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ راہول گاندھی کا خطاب سننے کے لئے آئے تھے جو راہول گاندھی کی 5 ماہ طویل بھارت جوڑو یاترا کے بعد ان کے ہر انٹرویو اور خطاب کو فالو کررہے ہیں ۔ سیٹھی کہتے ہیں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں مذہبی خطوط پر لوگوں کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا اور ان حالات میں وہ نہیں سمجھتے کہ ایک سیاستداں کی حیثیت سے راہول گاندھی حالات بدلنے کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن راہول گاندھی جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور وہ راہول گاندھی کی حقیقت پسندانہ باتوں کو پسند کرتے ہیں ۔ سیٹھی نے راہول گاندھی کے ایونٹ کی تصویر فیس بک پر پوسٹ کی لیکن ان کی بیوی نے اس خوف سے اُسے حذف کروادیا کہ اس سے ان کے وہ دوستوں سے جو مودی کی تائید و حمایت کرتے ہیں بحث ہوگی۔
دوسری طرف 36 برسوں سے امریکہ میں مقیم تھامس وراسکیمکل کا کہنا تھا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ راہول گاندھی اقتدار میں آسکتے ہیں ‘‘ ۔ لیکن مسٹر تھامس کو راہول گاندھی کی تقاریر پسند ہے وہ کہتے ہیں کہ راہول گاندھی عام لوگوں کے لئے آواز اُٹھارہے ہیں ۔ تھامس لانگ آئی لینڈ میں رہتے ہیں اور وہ بھی اُن کثیر ملیالم باشندوں میں شامل تھے جو راہول گاندھی کا خطاب سننے کیلئے آئے تھے ۔
بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہول گاندھی سے متاثر ہونے والوں میں سٹی یونیورسٹی آف نیویارک کے پی ایچ ڈی طالب علم ریشبھ گورو بھی شامل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہول گاندھی ایک بالغ نظر سیاستداں کے طورپر اُبھر آئے ہیں ، ان کی شبیہ بہتر ہوئی ہے ۔ انھوں نے اس یاترا کے ذریعہ خود کو عوامی لیڈر ثابت کیا ۔ وہ راہول گاندھی کو اب ’’جنتا کا لیڈر ‘‘ محسوس کررہے ہیں اور ہم سب کو راہول تک بآسانی رسائی حاصل ہے ۔ نیویارک میں اپنے خطاب کے دوران راہول گاندھی نے ہندوستان اور امریکہ کے درمیان مضبوط شراکت داری پر زور دیا تاکہ علاقہ میں چین کے اثر کو کم سے کم کیا جائے ۔ راہول کے مطابق چین نے موبیلٹی اور عالمی سطح پر توانائی کی سربراہی کے معاملہ میں ہمارے سامنے چیلنج کھڑا کیاہے ایسے میں ہندوستان اور امریکہ کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح اس چیلنج کا مقابلہ یا سامنا کرسکتے ہیں ۔
راہول گاندھی کے ساتھ کانگریس کے کئی سینئر قائدین بشمول منی شنکر ایئر ، دیپندر سنگھ ہوڈا ، امریندر سنگھ برار ، ردراجن گڈنگو ، الکا لامبا اور دوسروں نے بھی خطاب کیا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ راہول گاندھی کو مودی حکومت نے سفارتی پاسپورٹ سے محروم کردیا جس کے باعث وہ ایک آرڈینری پاسپورٹ پر امریکہ آئے تھے ۔ انھیں ایمگریشن کاؤنٹر پر دو گھنٹوں تک قطار میں کھڑا رہنا پڑا ۔ انھوں نے امریکہ میں کیلیفورنیا کی اسٹانفورڈ یونیورسٹی اور واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل پریس کلب میں خطاب کیا ۔ واضح رہے کہ امریکہ میں 2021 ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستانی باشندوں کی تعداد 2.7 ملین ہے جو امریکہ میں پیدا ہونے والی آبادی کا 6 فیصد ہیں۔