امریکی ایجنسی نے جو بائیڈن کواقتدار کی منتقلی کی تصدیق کر دی

   

ڈونالڈ ٹرمپ کی ’جی ایس اے‘ کو اقتدار کی منتقلی کی اجازت ،مگر تمام قانونی چارہ جوئی بھی جاری رکھنے ٹرمپ کا فیصلہ

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کڑوا گھونٹ پی لیا، نو منتخب صدر جوبائیڈن انتظامیہ کو اختیارات منتقلی کی بالآخر منظوری دیدی، اس طرح کئی ہفتوں سے جاری ٹال مٹول انجام کو پہنچ گئی۔امریکہ میں ‘جنرل سروس ایڈمنسٹریشن’ (جی ایس اے) کی سربراہ ایملی مرفی کے ایک مکتوب کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن کو بتا دیا گیا ہے کہ ان کی اقتدار کی منتقلی کا عمل اب باضابطہ طور پر شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس خط کا مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ نے پہلی بار صدر ٹرمپ کی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ دو ہفتے قبل ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی تقریبا ًتمام مبصرین اور عالمی میڈیا نے جو بائیڈن کو فاتح قرار دیدیا تھا تاہم ٹرمپ نے اب تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے۔جی ایس اے کی سربراہ ایملی مرفی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے۔ ”میں نے قانون اور دستیاب حقائق کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ میرے فیصلے اور وقت کے تعلق سے مجھ پر وائٹ ہاؤس کے ایگزیکیٹیو حکام یا پھر جی ایس اے میں کام کرنے والوں کی جانب سے راست یا براہ راست کوئی دباؤ نہیں تھا۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میرے عزم میں تاخیر کے لیے بھی کسی جانب سے مجھے کوئی ہدایت نہیں ملی۔اس اقدام کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اب بائیڈن کی ٹیم کو آئندہ دو ماہ کے دوران اقتدار کی منتقلی تک ایک دفتر کے ساتھ ساتھ وفاقی فنڈز بھی مہیا ہوسکیں گے۔ اس کے بعد سے اب نو منتخب صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب کملا ہیرس کو بھی اسی طرز پر نیشنل سکیورٹی بریفنگ ملنے لگے گی جیسے صدر ٹرمپ کو ہر روز دی جاتی ہے۔امریکی قوانین کے مطابق رخصت پذیر صدر کی انتظامیہ استحکام کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے اقتدار کی مکمل منتقلی تک نو منتخب صدر کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔صدر ٹرمپ نے ابھی تک انتخابات میں اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے اور اپنی تمام قانونی چارہ جوئی جاری رکھنے کے منصوبوں کے باوجود ایملی مرفی کو اقتدار کی منتقلی کی اجازت دیدی ہے۔انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”میں جی ایس اے میں ایملی مرفی کا ملک کے ساتھ ان کی ثابت قدمی اور لگن کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہیں ہراساں کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔ اور میں ان کے، ان کے اہل خانہ یا پھر جی ایس اے کے ملازمین کے ساتھ ایسا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔صدر ٹرمپ نے انتخابات کے حوالے سے اپنی قانونی چارہ جوئی جاری رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارا کیس مضبوطی سے جاری ہے، ہم اچھی طرح سے مقابلہ کرتے رہیں گے اور مجھے یقین ہے کہ ہم کامیاب بھی ہوں گے۔ بہرحال ملک کے بہتر مفاد کے لیے میں نے ایملی اور ان کی ٹیم سے ابتدائی پروٹوکول کے لیے جو بھی مناسب ہو وہ کرنے کی سفارش کی ہے اور اپنی ٹیم سے بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت دی ہے‘‘۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم نے بھی ان اقدامات کی تصدیق کر دی ہے۔ ٹیم کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا، ”جی ایس اے انتظامیہ نے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نو منتخب نائب صدر کملاہیرس کی انتخابات میں بظاہر کامیابی کی نشاندہی کر دی ہے اور آنے والی انتظامیہ کو اقتدار کی ہموار اور پرامن منتقلی کے لیے ضروری وسائل اور مدد فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
واضح رہے کہ صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔۔۔۔