امریکی جنگی بیڑے کو طیاروں اور عملے سمیت سمندر میں غرق کرنا ممکن

,

   

نیوکلیئر معاہدے کے بارے میں استصواب عامہ منعقد کرنے صدر ایران حسن روحانی کی تجویز
تہران ۔26 مئی ۔(سیاست ڈاٹ کام) ایران اور امریکہ کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے منظر میں ایران کی سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے سنگین نوعیت کے دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران کے ایک سینیئر عسکری عہدیدار جنرل مرتضیٰ قربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران، امریکہ کے جنگی بیڑے کو ’’خفیہ ہتھیاروں اور میزائلوں‘‘ کے ذریعے خلیجی پانیوں میں عملے سمیت ڈُبونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ایرانی فوج کے مشیر جنرل قربانی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ نے علاقائی پانیوں میں اپنے دو جنگی بیڑے بھیج کر سنگین غلطی اور بہت بڑی حماقت کی ہے۔ امریکی جنگی بیڑے، ان پر موجود طیارے اور دیگر عملہ ہمارے میزائلوں کے نشانے پر ہیں۔ ہم خفیہ ہتھیاروں یا میزائلوں کے ذریعے امریکی جنگی بیڑے کو اسلحہ اور فوج سمیت سمندر میں ڈبونے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ایرانی خبر رساں ایجنسی ’مھر‘ کے مطابق فوج کے ایک دوسرے سینیر عہدیدار بریگیڈیئر جنرل حسن سیفی امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا مگر مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ تاہم ایرانی عہدیداروں کے بیانات میں کھلا تضاد دکھائی دیتا ہے۔خیال رہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں مزید 1500 فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اضافی فوج کی تعیناتی کی تجویز میں انہیں اپنی حکومت کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔اس دوران صدر ایران نے تجویز پیش کی ہے کہ قوم نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں استصواب عامہ منعقد کرسکتی ہے جبکہ امریکہ اور ایران کے درمیان اُس کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں کشیدگی عروج پر ہے ۔ سرکاری خبر رساں ادارہ ’ارنا ‘ کے بموجب صدر حسن روحانی جو گزشتہ ہفتہ برسرعام نظر آرہے تھے جبکہ ملک کے اعلیٰ ترین قائد کی جانب سے قوم کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ایک اجلاس بڑے ایرانی خبررساں چینلس کے ایڈیٹرس کا طلب کرے اور ہفتہ کی شام اجلاس منعقد کیا جائے ۔

صدر ایران حسن روحانی نے کہاکہ قبل ازیں وہ اعلیٰ ترین قائد آیت اﷲ علی خامنہ ای کو 2004 ء میں استصواب عامہ کی تجویز پیش کرچکے ہیںجبکہ ایک سینئر عہدیدار نیوکلیئر معاہدہ کیلئے سودے بازی میں مصروف تھا ۔ اُس وقت خامنہ ای نے اس تجویز کو منظوری دیدی تھی ۔ تاہم تجویز میں استصواب کا لفظ درج نہیں کیا گیاتھا ۔ صدر ایران نے کہاکہ اس قسم کا استصواب کسی بھی وقت کسی بھی مسئلہ کا حل تلاش کرسکتا ہے ۔ قبل ازیں استصواب عامہ کے ذریعہ حکومت ایران نے اپنے سیاسی کردار کا تعین کیا تھا اور یورانیم کی افزودگی کی اجازت دی تھی جس پر 2015 ء کے عالمی طاقتوں کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کے نتیجے میں پابندی عائد ہوگئی ۔